بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ پر بعض ورثاء کا قبضہ کرنے کا حکم


سوال

ایک سال پہلے میرے والدین وفات پا گئے تھے، میری والدہ کے پاس 20 تولے  کا زیور تھا، ہماری والدہ نے اپنی زندگی میں کچھ زیور اپنی نواسی اور پوتی کی شادی پر ان کو دے دیا تھا،  اور جو زیورات باقی تھے وفات کے بعد میرے دو بھائیوں نے آپس میں بانٹ لیا۔

1۔کیا شرعی لحاظ سے یہ جائز عمل ہے ؟

2۔میت کے ترکہ کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں  اگر واقعۃ مذکورہ زیورات سائل کی والدہ کی ملکیت تھے، تو ان کی وفات کے بعد ان کے تمام ورثاءاس میں شریک ہیں ،لہذا یہ زیورات تمام ورثاء میں  ان کے شرعی حصے کے تناسب سے  تقسیم  ہوں گے، صرف دو بھائیوں کا اس پر قبضہ کر کے آپس   میں بانٹ لینااور دیگر ورثاء کو نہ دینا شرعا ناجائز ہے اور حرام ہے، ایسے لوگوں کے لیے شریعتِ مطہرہ میں بہت ساری وعیدیں آئی ہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»."

(باب الغصب والعاریة ، ج:1، ص:254،ط: قدیمی.)

"ترجمہ:حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔"

وفیه ایضاً:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»،رواه ابن ماجه".

(باب الوصایا، الفصل الثالث ، ج:1، ص:  266 ، ط: قدیمی)

"ترجمہ :حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الشركة الجبرية هي الشركة الحاصلة بغير فعل المتشاركين، سواء كان ذلك بأحد أسباب التملك كالإرث أو بغير أسباب التملك كاختلاط الأموال. كالاشتراك الحاصل في صورة التوارث واختلاط المالين."

[الكتاب العاشر : الشركات ، الفصل الثامي في بيان كيفية الأعيان المشتركة ج:3، ص:19، ط: دار الجيل.]

2۔ ورثاء کی تفصیل لکھ کرکے دوبارہ سوال کریں۔

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311100418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں