بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹرین کے سفر میں فرض نماز کی ادائیگی


سوال

میں تبلیغی جماعت سے بہت محبت  اور عقیدت رکھتا ہوں اور ان کو اہلِ  حق سمجھتا ہوں، لیکن ایک چیز مجھے پریشان کرتی  ہے، میں اکثر ٹرین کا سفر کرتا ہوں اور میں ٹرین میں تبلیغی ساتھیوں کو راستہ کے بیچ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھتا ہوں ، جس سے انہیں نماز پڑھنے میں بہت تکلیف ہوتی ہے،  اور باقی مسلمانوں کو راستے میں بھی پریشانی ہوتی ہے، کیا یہ عمل مسلمان اور انسان کے  لیے تکلیف دہ اعمال میں نہیں کہ آگے  نماز ہورہی ہے اور اس کا آنا جانا اور سامان پکڑے رہنا ، ان کے لیے یہ بہت تکلیف کا باعث بنتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نمازوں کو اپنے مقررہ اوقات میں  اداکرنا مسلمان پر لازم ہے،جان بوجھ کر، کسی شدید عذر کی بنا پر  نماز قضا کرنا سخت گناہِ کبیرہ ہے،اَحادیثِ مبارکہ میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں،  البتہ شدید عذر اور مجبوری کی صورت میں اگر نماز کا وقت نکل جائے اور بعد میں اس کو قضا کرلیا جائے تو اس کا گناہ نہیں ہوگا۔

 جب کہ دوسری طرف ٹرین میں فرض واجب سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے،  ٹرین چل رہی ہو یا رکی ہوئی ہو۔ البتہ ٹرین میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی،  ہاں نوافل، قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں۔

لہذا اگر ٹرین میں سفر کے دوران یہ اطمینان ہو کہ  نماز کے وقت کے اندر ٹرین کسی اسٹیشن پر رکے گی اور  وہاں سہولت سے نماز ادا کرنا ممکن ہوگا تو  ایسی صورت میں اسٹیشن پر  باجماعت نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے؛ تاکہ نماز میں یکسوئی بھی مل سکے اور ٹرین کی وجہ سے ذہنی انتشار بھی نہ ہو اور دوسرے لوگوں کو بھی مشکل نہ ہو۔

 اگر نماز کے وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر ٹرین  کا رکنا ممکن نہ ہو  اور جماعت کا وقت نکل رہا ہو  یا ٹرین مختصر وقت کے لیے رکے، جس میں نماز ادا کرنے میں خطرہ ہو کہ ٹرین نکل جائے گی تو ایسی صورت میں  سب مسلمانوں کو ٹرین ہی میں مناسب طریقہ سے نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے، یہ سب کا دینی فریضہ ہے۔

البتہ اگر ٹرین میں اس قدر رش ہو کہ قبلہ رو کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو اور وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر اتر کر استقبالِ قبلہ اور قیام کے ساتھ نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو  اور ٹرین مشرق یا مغرب کی سمت جارہی ہو (جیساکہ پاکستان وغیرہ میں ہے) اور  راستوں میں کھڑے ہونے سے ، مسافروں کو پریشانی کا سامنا ہو تو   ایسی صورت میں  تو دو سیٹوں کے درمیان قبلہ رو ہو کر قیام اور  رکوع کر کے نماز ادا کرلی جائے اور سجدہ کے لیے  پچھلی سیٹ پر کرسی کی طرح بیٹھ جائے، یعنی پاؤں نیچے ہی رکھے اور سامنے سیٹ پر سجدہ کرے، اس عذر کی صورت میں سجدے کے لیے  گھٹنے کسی چیز پر ٹیکنے کی ضرورت نہیں، اور اس کی وجہ سے سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوگا۔ البتہ (پاکستان میں) اگر ٹرین شمال یا جنوب کی جانب جارہی ہو تو اس صورت میں مذکورہ طریقہ کار کے مطابق نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا۔

اور اگر  مذکورہ صورتوں کے مطابق نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو  اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و من أراد أن یصلي في سفینة تطوعاً أو فریضةً فعلیه أن یستقبل القبلة، ولا یجوز له أن یصليَ حیث ماکان وجهه."

(الفتاویٰ الهندیة ۱؍۶۴، البحر الرائق / باب صلاة المریض ۲؍۲۰۷ رشیدیة، ۲؍۱۱۷کوئٹہ) 

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخلاصة: وفتاوی قاضیخان وغیرهما: الأیسر في ید العدو إذا منعه الکافر عن الوضوء والصلاة یتیمم ویصلي بالإیماء، ثم یعید إذا خرج … فعلم منه أن العذر إن کان من قبل الله تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة".

 (البحر الرائق، الکتاب الطهارة، باب التیمم، رشیديه ۱/ ۱۴۲)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں