بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی رکعات کی تعداد اور اس کا ثبوت


سوال

رمضان میں تراویح کی بیس( 20) رکعات کہاں سے ثابت ہے؟

جواب

 رمضان المبارک کے مہینے میں تراویح پڑھنا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت مبارکہ ہے، جس پر آج تک تعامل چلا آرہاہے، جہاں تک تعدادِ رکعات کا تعلق ہے تو حضرتِ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت کے علاوہ اکثر خلفاء راشدین کا متوارث طریقہ ہے، جب خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیس رکعات تراویح ایک قاری کی اقتداء میں پڑھنے کا حکم دیا تو اس دور ِصحابہ رضی اللہ عنہم میں کسی نے آپ پر نکیر نہیں کی، گویا انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر اجماع کیا، اصولی طور پر یہ فیصلہ بھی مرفوع روایت کے حکم میں ہے، اس ليے کہ صحابی کا عبادات میں خلافِ قیاس بات کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس نے یہ بات حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوگی، اس کے علاوہ  جملہ امّت کا اس پر اجماع ہوچکا ہے۔

  بیس رکعات کے بارے میں ایک روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:

" أنّ رسول الله صلی الله علیه وسلم کان یصلّي في رمضان عشرین رکعةً".

(مصنف ابن أبي شیبة،کتاب الصلوۃ،  باب من کان یری القیام في رمضان، ج:2، ص:394. ط:دارالقبلة، بیروت)

نیز اسی طرح کی ایک  روایت ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں منقول ہے:

" أنه صلى الله عليه وسلم صلى بالناس عشرين ركعةً ليلتين، فلما كان في الليلة الثالثة اجتمع الناس فلم يخرج إليهم، ثمّ قال من الغد: خشيت أن تفرض عليكم فلاتطيقوها".

(التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر، باب صلاة التطوع، ج:2، ص:53. ط: دارالکتب العلمیة)

لہذا صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے، اور تمام فقہاء کے نزدیک تراویح بیس رکعات سنت ہے، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرام کی مخالفت اور گم راہی ہے، اور تراویح کو بیس رکعت نہ ماننا اور اس کے خلاف  پرعمل کرنا اجماعِ امت کے خلاف ہے۔

مرقاةاالمفاتیح میں ہے:

"لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً".

(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ج:3، ص:382، ط: مکتبہ رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين".

(كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، 2، ص:43، ط: ایچ ایم سعيد)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي شرح منية المصلي وحكى غير واحد الإجماع على سنيتها وقد سنها رسول الله صلى الله عليه وسلم و ندبنا إليها وأقامها في بعض الليالي ثم تركها خشية أن تكتب على أمته كما ثبت ذلك في الصحيحين وغيرهما ثم وقعت المواظبة عليها في أثناء خلافة عمر - رضي الله عنه - ووافقه على ذلك عامة الصحابة  رضي الله عنهمكما ورد ذلك في السنن ثم ما زال الناس من ذلك الصدر إلى يومنا هذا على إقامتها من غير نكير وكيف لا وقد ثبت عنه «صلى الله عليه وسلم عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ» كما رواه أبو داود وأطلقه فشمل الرجال والنساء كما صرح به في الخانية والظهيرية وقوله عشرون ركعة بيان لكميتها وهو قول الجمهور لما في الموطإ عن  يزيد بن رومان قال كان الناس يقومون في زمن عمر بن الخطاب بثلاث وعشرين ركعة وعليه عمل الناس شرقا وغربا لكن ذكر المحقق في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضي أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلى الله عليه وسلم منها ثم تركه خشية أن تكتب علينا والباقي مستحب وقد ثبت أن ذلك كان إحدى عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من حديث عائشة فإذن يكون المسنون على أصول مشايخنا ثمانية منها والمستحب اثنا عشر انتهى وذكر العلامة الحلبي أن الحكمة في كونها عشرين أن السنن شرعت مكملات للواجبات وهي عشرون بالوتر فكانت التراويح كذلك لتقع المساواة بين المكمل والمكمل انتهى".

(کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل، صلوۃ التراویح، ج:2، ص:71، ط:دارالکتاب الاسلامی)

مزید تفصیل کے لیے جامعہ کے ترجمان رسالہ ”ماہنامہ بینات“ میں اس موضوع پر تفصیلی مضمون ملاحظہ فرمائیں:

عنوان: رکعاتِ تراویح بیس یا آٹھ۔۔۔۔۔!

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں