بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کے لیے جمع شدہ رقم کسی اور مصرف میں خرچ کرنے کا حکم


سوال

نماز تراویح پڑھانے والے افراد کے لیے جو پیسے اکٹھے کیے جاتے ہیں وہ کہیں اور بھی لگ سکتے ہیں کہ نہیں اور ان کے علاوہ کسی اور کو دیے جا سکتے ہیں ؟

جواب

اصولی طور پر چندے کی رقم کا حکم یہ ہے کہ چندے کی رقم جس مد کے لیے جمع کی گئی ہو اسی مد میں خرچ کرنا ضروری ہے، اس کے علاوہ مصرف میں خرچ کرنے لیے چندہ دینے والوں کی اجازت ضروری ہے، اگر چندہ دینے والے اجازت دے دیں تو کسی اور مصرف میں اس کا استعمال جائز ہوگا۔

باقی  تراویح   میں حافظ کے لیے چندہ سے مراد اگر یہ ہے کہ حافظِ قرآن کے لیے اجرت کا انتظام کیاجائے تو یہ درست  نہیں ہے۔ اگر کوئی حافظ بغیر معاوضے کے سنانے والا نہ ملے تو مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح پڑھ لینی چاہیے۔

البتہ اگر حافظِ قرآن کی طرف سے قرآنِ مجید سنانے یا سننے پر اجرت یا ہدیہ کا مطالبہ نہ ہو، اور اس جگہ اس کے التزام کا عرف بھی نہ ہو، اور بغیر جبر و دباؤ کے کچھ لوگ از خود اپنی خوشی و رضامندی سے پیسے جمع کرکے حفاظ کی خدمت کردیں تو یہ اجرت میں داخل نہیں ہوگا۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"في فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - رجل جمع مالا من الناس لينفقه في بناء المسجد فأنفق من تلك الدراهم في حاجته ثم رد بدلها في نفقة المسجد لا يسعه أن يفعل ذلك فإن فعل فإن عرف صاحب ذلك المال رد عليه أو سأله تجديد الإذن فيه وإن لم يعرف صاحب المال استأذن الحاكم فيما يستعمله وإن تعذر عليه ذلك رجوت له في الاستحسان أن ينفق مثل ذلك من ماله على المسجد فيجوز، لكن هذا واستثمار الحاكم يجب أن يكون في رفع الوبال أما الضمان فواجب، كذا في الذخيرة." 

(كتاب الاوقاف، الباب الثالث عشر فى الاوقاف اللتى يستغنى عنها، ج:2، ص:480، ط:مكتبه رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201848

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں