بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح تیز پڑھنے کا حکم


سوال

کیا تراویح تیز پڑھنا درست ہے؟

جواب

اگر تراویح میں قاری صاحب قرآنِ پاک عام فرض نمازوں  کی بنسبت روانی سے پڑھتے ہوں، لیکن  الفاظ درست ادا کرتےہوں تو اس طرح قرآن پڑھنا درست ہے، اور ایسے قاری صاحب کے  پیچھے تراویح پڑھنا بھی درست ہے، لیکن اگر کوئی اس  قدر تیز پڑھتا ہو کہ بعض الفاظ ادا نہ ہوتے ہوں، یا الفاظ  درست ادا نہ ہوتےہوں (یعنی مخارج ہی تبدیل ہوجائیں)اور سامعین کو کچھ سمجھ نہ آتا ہو تواس طرح قرآن مجید پڑھنا اور ایسے حفاظ کے  پیچھے تراویح پڑھنا درست نہیں۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"روى الحسن عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه يقرأ في كل ركعة عشر آيات ونحوها وهو الصحيح، كذا في التبيين ويكره الإسراع في القراءة وفي أداء الأركان، كذا في السراجية وكلما رتل فهو حسن، كذا في فتاوى قاضي خان والأفضل في زماننا أن يقرأ بما لا يؤدي إلى تنفير القوم عن الجماعة لكسلهم؛ لأن تكثير الجمع أفضل من تطويل القراءة، كذا في محيط السرخسي.والمتأخرون كانوا يفتون في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لايمل القوم و لايلزم تعطيل المساجد وهذا أحسن، كذا في الزاهدي."

(كتاب الصلوة، فصل فى التراويح، ج:1، ص:117، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209201344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں