بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح اور سحری سے متعلق مسائل کا حکم


سوال

1۔  ایک آدمی روزہ تو رکھتا ہے ،اور نماز بھی ادا کرتا ہے ،لیکن تراویح ادا نہیں کرتا کیا اس کا روزہ مکمل ہو جاتا ہے کہ نہیں؟

2 ۔  ایک شخص کی سحری کے لیے ٹائم پر آنکھ نہ کھلی اور جب کھلی تو 5 بج  گئے تھے ،جلدی جلدی سحری بنائی اور کھا پی کر روزہ رکھ لیا،  یہ روزہ صحیح   ہواہے یا نہیں ؟رہنمائی فرمائیں۔

جواب

1۔واضح رہے کہ رمضان المبارک میں عشاء کی نماز کے بعد بیس رکعات تراویح  کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیےسنتِ مؤکدہ ہے، خلفاء راشدین،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین  رحمہم اللہ سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے، بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے، تاہم اگر کوئی شخص تراویح کی نماز نہ پڑھے اور  نماز پڑھنے،روزہ رکھنے کااہتمام کرے تو روزہ ،اور نمازکا فریضہ ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، لیکن تراویح کے اجر و ثواب سے محروم رہے گا۔

2۔صورتِ مسئولہ میں مذ کورہ شخص اگر ایسے علاقے کا رہائشی ہے ،جہاں پر  (5 )بجے  تک  سحری کا وقت رہتا ہے ،اور مذكوره   شخص نےصبح صادق کے بعد کھا پی کے روزہ  کی نیت  کر لی ،تو مذکورہ شخص کا روزہ درست  نہیں ہوگا ،اس کے ذمہ بعد میں اس روزے کی قضاء  کرنا لازم ہو گا،کفارہ لازم نہیں ہو گا،البتہ روزہ داروں کی طرح سارہ دن بھوکا پیاسا رہنا ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(التراويح سنة) مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعاً :۔صححه في الهداية وغيرها، وهو المروي عن أبي حنيفة. وذكر في الاختيار أن أبا يوسف سأل أبا حنيفة عنها وما فعله عمر، فقال: التراويح سنة مؤكدة، ولم يتخرجه عمر من تلقاء نفسه، ولم يكن فيه مبتدعا؛ ولم يأمر به إلا عن أصل لديه وعهد من رسول الله - صلى الله عليه وسلم."

(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد، وهكذا في المكتوبات، كما في المنية، وهل المراد أنها سنة كفاية لأهل كل مسجد من البلدة أو مسجد واحد منها أو من المحلة؟ ظاهر كلام الشارح الأول. واستظهر ط الثاني. ويظهر لي الثالث، لقول المنية: حتى لو ترك أهل محلة كلهم الجماعة فقد تركوا السنة وأساءوا."

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج:2،ص:43،ط: سعید)

وفيه ايضا:

"أو تسحر أو أفطر يظن اليوم) أي الوقت الذي أكل فيه (ليلاً و) الحال أن (الفجر طالع والشمس لم تغرب) لف ونشر ويكفي الشك في الأول دون الثاني عملاً بالأصل فيهما ولو لم يتبين الحال لم يقض في ظاهر الرواية، والمسألة تتفرع إلى ستة وثلاثين، محلها المطولات (قضى) في الصور كلها (فقط)."

(كتاب الصوم ،باب ما يفسد الصوم ومالا يفسد،ج :2، ص:405،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"‌أو ‌تسحر على ظن أن الفجر لم يطلع ثم تبين أنه طالع فإنه يجب عليه الإمساك في بقية اليومتشبها بالصائمين وقيل الإمساك مستحب لا واجب والصحيح الوجوب كذا في فتح القدير."

(كتاب الصوم ،فصل في الإعتكاف ،ج :1،ص:214،ط :دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قولہ أوتسحر) أی یجب علیه القضاء دون الکفارۃ لان الجنایه قاصرۃ وھی جنایة عدم التثبت لاجنایة الإفطارلانه لم یقصدہ."

(كتاب الصوم ،باب ما يفسد الصوم ومالا يفسد،ج :2، ص:405،ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے :
"تسحرّ على ظن أن الفجر لم يطلع، وهو طالع أو أفطر على ظنّ أنّ الشمس قد غربت، ولم تغرب قضاه، ولا كفارة عليه؛ لأنه ما تعمد الإفطار، كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الصوم ،فصل فی تعریفه وتقسيمه ووقته وشرطه،ج:1،ص:194،ط:دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100866

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں