بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں مرد امام کا صرف عورتوں کی امامت کرنا / تراویح میں محرم عورت کا اپنے محرم امام کو لقمہ دینا


سوال

نماز تراویح مرد پڑھا رہا ہو اور درمیان میں مردوں کی صف نہ ہو اور امام کے پیچھے عورتیں کھڑی ہوں تو نماز ہوجاتی ہے یا مردوں کی صف ہونا ضروری ہے؟ نیزاگر نماز تراویح میں تمام مقتدی عورتیں مرد امام کی محرم ہوں اور محرم عورتیں اپنے محرم امام کو لقمہ دیں تو یہ شرعاًکیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر امام مرد ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں، کوئی مرد موجود نہ ہو، اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون بھی موجود ہو،اور  امام عورتوں کی امامت کی نیت بھی  کرے  اور باہر سے عورتیں بھی  نہ آتی ہوں تو  اس صورت میں تراویح کی نماز  درست ہوگی، مردوں کی صف کا ہونا ضروری نہیں ہے، البتہ  امام کی نامحرم خواتین پردہ کا اہتمام کرکے شریک ہوں۔

تاہم اگر  عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون یا بیوی نہ ہو،  تو ایسی صورت میں   امام کے لیے عورتوں کی امامت کرنا مکروہ ہوگا۔

باقی موجودہ پرفتن دور میں  خواتین کو گھر سے نکل کر کسی دوسری جگہ  تراویح میں شرکت کی اجازت نہیں ہے، عورتیں اپنے اپنے گھروں میں نماز ادا کریں، یہی ان کے لیے فضیلت کا باعث ہے۔

نیزاگر نماز تراویح میں تمام مقتدی عورتیں مرد امام کی محرم ہوں اور  دوسرا  کوئی نامحرم مرد شامل نہ ہو اور عورت  غلطی آنے پر اپنے محرم امام کولقمہ  دے دے اور امام لقمہ لے لے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، البتہ عورت کو لقمہ دینے سے اس صورت میں  اجتناب کرنا چاہیے،بلکہ  غلطی آنے پر  بائیں ہاتھ کی  پشت پر دائیں ہاتھ سے مار کر امام کو متوجہ کردینا چاہیے، اور امام غلطی کی اصلاح نہ کرسکے تو اسے چاہیے کہ رکوع کرلے۔

مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اپنی شہرۂ آفاق تفسیر” معارف القرآن“ میں لکھتے ہیں:

”مسئلہ : اس آیت اور حدیث مذکور سے اتنا تو ثابت ہوا کہ عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں، لیکن اس پر بھی احتیاطی پابندی یہاں بھی لگادی اور تمام عبادات اور احکام میں اس کی رعایت کی گئی ہے کہ عورتوں کا کلام جہری نہ ہو جو مرد سنیں ۔ امام کوئی غلطی کرے تو مقتدیوں کو لقمہ زبان سے دینے کا حکم ہے، مگر عورتوں کو زبان سے لقمہ دینےکے بجائے یہ تعلیم دی گئی کہ اپنے ہاتھ کی پشت پر دوسرا ہا تھ مار کر تالی بجا دیں جس سے امام متنبہ ہو جائے زبان سے کچھ نہ کہیں ۔“

(سورۂ احزاب، ج:7، ص:132، ط:مکتبہ معارف القرآن)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح ميں ہے:

"قوله: "لأنه عورة" ضعيف والمعتمد أنه فتنة فلا تفسد ‌برفع ‌صوتها صلاتها."

(کتاب الصلاۃ، باب الاذان، ص:99، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة ح (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. ومقابله ما في النوازل: نغمة المرأة عورة، وتعلمها القرآن من المرأة أحب. قال عليه الصلاة والسلام «التسبيح للرجال، والتصفيق للنساء» فلا يحسن أن يسمعها الرجل. اهـ. وفي الكافي: ولا تلبي جهرا لأن صوتها عورة، ومشى عليه في المحيط في باب الأذان بحر. قال في الفتح: وعلى هذا لو قيل إذا جهرت بالقراءة في الصلاة فسدت كان متجها، ولهذا منعها عليه الصلاة والسلام من التسبيح بالصوت لإعلام الإمام بسهوه إلى التصفيق اهـ وأقره البرهان الحلبي في شرح المنية الكبير، وكذا في الإمداد؛ ثم نقل عن خط العلامة المقدسي: ذكر الإمام أبو العباس القرطبي في كتابه في السماع: ولا يظن من لا فطنة عنده أنا إذا قلنا صوت المرأة عورة أنا نريد بذلك كلامها، لأن ذلك ليس بصحيح، فإذا ‌نجيز الكلام مع النساء للأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا ‌نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة. اهـ. قلت: ويشير إلى هذا تعبير النوازل بالنغمة."

(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج:1، ص:406، ط:سعید)

وفيه ا یضا:

"(ويكره حضورهن الجماعة) ۔۔۔۔۔۔ (كما تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره بحر."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامة، ج:1، ص:566، ط:سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي ‌شرح المنية الأشبه أن صوتها ليس بعورة، وإنما يؤدي إلى الفتنة كما علل به صاحب الهداية وغيره في مسألة التلبية ولعلهن إنما منعن من رفع الصوت بالتسبيح في الصلاة لهذا المعنى ولا يلزم من حرمة رفع صوتها بحضرة الأجانب أن يكون عورة كما قدمناه."

(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج:1، ص:285، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608102214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں