بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں مکمل ختم قرآن کے بجائے بعض حصہ پڑھنے سے تراویح کا حکم


سوال

کیا تراویح میں پورے قرآن کا سنانا ضروری ہے؟اگر پندرہ پارے کا حافظ ہے، اور سنانا چاہتا ہےاور باقی کے ایام میں آخر کے دس سورتیں سنائےگا تو کیا یہ درست ہے؟

جواب

تراویح میں مکمل قرآن ختم کرنا مسنون ہے،لہذا جو حافظِ قرآن  تراویح میں مکمل قرآن ختم نہیں کرےگا بلکہ قرآن کا بعض حصہ پڑھے تب بھی تراویح درست ہوجائے گی، تاہم قرآن مکمل سنانے اور سننے  کی سنت پر عمل کرنے والا نہ ہوگا،اس لیے بہتر یہ ہے کہ  باقی پندرہ پارے کے لیے کسی اور حافظ صاحب  کو مقرر کرلیا جائے۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"والختم سنة في ‌التراويح...أصله ما روي عن ‌عمر رضي الله عنه أنه دعا ثلاثة من الأئمة واستقرأهم فأمر أحدهم أن يقرأ في كل ركعة ثلاثين آية وأمر الآخر أن يقرأ في كل ركعة خمسة وعشرين آية وأمر الثالث أن يقرأ في كل ركعة عشرين آية...لأن عدد ركعات ‌التراويح في جميع الشهر ستمائة وعدد آي القرآن ستة آلاف وشيء فإذا قرأ في كل ركعة عشر آيات يحصل الختم فيها، ولو كان كما حكي عن ‌عمر رضي الله عنه لوقع الختم مرتين أو ثلاثا."

(کتاب التراويح، فصل حق قدر القراءة في صلاة التراويح، ج:2، ص:146، ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102181

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں