بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی قضا کا حکم


سوال

اگر رمضان المبارک میں کسی شخص سے ایک دن کی تراویح رہ جائے اور اس تراویح میں قرآن کاختم بھی  ہو،تو اگلے دن صرف قرآن کا وہ حصہ تلاوت کرے گا یا اس کے ساتھ گذشہ کل کی تراویح کا بھی  اعادہ  کرے گا؟

جواب

ازروئے شرع نمازِ تراویح کو اس کے وقت میں ادا نہ کیاتو وقت گزرنے کے بعد اس کی قضاء لازم نہیں ہے، لہذا وہ شخص جو تراویح میں کسی کی اقتداء کرتے ہوئے ختمِ قرآن کررہاہے،اگر کسی دن کی تراویح نہ پڑھ پائےتو اس چھوٹی ہوئی تراویح کی قضاء نہ کرے ، بلکہ  قرآن کریم کاجتنا حصہ سماعت  سے رہ گیا ہو،وہ تراویح میں پڑھ لےیا سن لے، تاکہ مکمل قرآن کریم  کا ثواب حاصل ہوجائے۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"نوع آخر إذا ‌فاتت ‌التراويح عن وقتها هل تقضى؟

اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يقضي ما لم يدخل وقت تراويح آخر، وقال بعضهم: يقضي ما لم يمض رمضان، وقال بعضهم: لا يقضي أصلا وهو الأصح؛ لأن التراويح ليست بأكثر من في السنة بعد المغرب والعشاء، وهي لا تقضى، فهذا أولى.والدليل عليه: أنها لا تقضى بالجماعة بالإجماع، ولو كانت تقضى لقضيت كما فانت، فإن قضاها منفردا كان نفلا مستحبا كسنة المغرب إذا قضيت."

(كتاب الصلاة، ‌‌الفصل الثالث عشر في التراويح والوتر مسائل التراويح، ج:1، ص:467، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا ‌فاتت ‌التراويح لا تقضى بجماعة ولا بغيرها وهو الصحيح، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصلاة، الباب التاسع، فصل في التراويح، ج:1، ص:117، ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408102046

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں