بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی پہلی رکعت میں مختصر قراءت اور دوسری طویل قراءت کرنا / تراویح بیٹھ کر پڑھنا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں 

1۔ تراویح کی پہلی رکعت مختصر اور دوسری رکعت لمبی کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

2۔   بلا عذر زمین پر بیٹھ کر تراویح کی نماز پڑھنا شرعا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

1۔صورت مسئولہ میں دونوں رکعات میں برابر قراءت کرنا مستحب ہے، البتہ دوسری رکعت میں پہلی رکعت کے بنسبت طویل قراءت کرنا بہتر نہیں ہے، اور اس کی عادت بنانا خلاف مستحب ہے، البتہ اگر کبھی طویل قراءت ہوگئی تو تراویح ہوجائے گی۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"تراویح میں دوسری رکعت میں قراءت طویل کرنا :

(سوال ۲۳۸) علمائے دین کیا فرماتے ہیں، حافظ صاحب تراویح کی پہلی رکعت میں قراءت مختصر اور دوسری رکعت میں طویل قراءت پڑھتے ہیں ۔ سامع کہتے ہیں کہ نماز میں پہلی رکعت میں قراءت لمبی اور دوسری میں مختصر ہونی چاہئے ۔ حافظ صاحب کہتے ہیں کہ سنت نماز میں پہلی رکعت میں قراءت مختصر اور دوسری رکعت میں لمبی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ۔آپ بالتفصیل جواب مرحمت فرمائیں ۔فقط بینوا توجروا۔

(الجواب) تراویح اگرچہ سنت ہے لیکن باجماعت پڑھی جاتی ہے اس لئے مشابہ بالفرض ہوجاتی ہے۔ لہذا تراویح میں دوسری رکعت میں قراءت لمبی کرنا پسندیدہ نہیں کسی وقت ہوجائے تو قابل گرفت بھی نہیں اس کی عادت بنا لینا خلاف مستحب ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ نماز تراویح میں دوسری رکعت کی قراءت طویل کرنا ناپسندیدہ ہے ۔ حضرت امام اعظم امام ابو حنیفہ ؒ اور امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک مستحب یہ کہ دونوں رکعتیں برابر ہوں ۔ اور امام محمد ؒ کے نزدیک مستحب یہ ہے کہ پہلی رکعت کی قراءت کچھ طویل ہونی چاہئے۔ ویستحب التسویۃ بین الرکعتین عندھما وعند محمد رحمه الله یطول القرأۃ في الاولیٰ علي الثانية ۔هكذا فی محیط السرخسي (عالمگیری، ١ / ٧٥، فصل فی التراویح. کبیری ص: ۳۸۷)(فقط والله اعلم بالصواب)۔ـ"

( مسائل تراویح، ٦ / ٢٤٦، ط: دار الاشاعت)

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار میں ہے:

"(وإطالة الثانية على الاولى يكره) تنزيها (إجماعا إن بثلاث آيات) إن تقاربت طولا وقصرا، وإلا اعتبر الحروف والكلمات،

واعتبر الحلبي فحش الطول لا عدد الآيات.

واستثنى في البحر ما وردت به السنة، واستظهر في النفل عدم الكراهة مطلقا (وإن بأقل لا) يكره، لانه عليه الصلاة والسلام صلى بالمعوذتين."

( كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ص: ٧٤، ط: دار الكتب العلمية)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور میں ہے:

 "و" يكره "تطويل" الركعة "الثانية على" الركعة "الأولى" بثلاث آيات فأكثر لا تطويل الثالثة لأنه ابتداء صلاة نفل "في جميع الصلوات" الفرض بالاتفاق والنفل على الأصح إلحاقا له بالفرض غيما لم يرد فيه تخصيص من التوسعة.

قوله: "فيما لم يرد فيه تخصيص من التوسعة" أما ما ورد فيه نص فلا يكره كما ورد أنه صلى الله عليه وسلم كان يقرأ في أولى الجمعة والعيدين بالأعلى وفي الثانية بالغاشية والثانية زادت على الأولى بسبع آيات وأجاب الزاهدي بأن الزيادة تختلف بحسب السور فإن كانت السور قصارا فالثلاث آيات زيادة كثيرة مكروهة وإن كانت طوالا فالبسع آيات زيادة يسيرة غير مكروهة اهـ قال الحلبي وهو حسن."

( كتاب الصلاة، فصل في المكروهات، ص: ٣٥١، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

2۔ بلا عذر تراویح بیٹھ کر   ادا کرنا مکروہ تنزیہی ہے،   لہذا اس کی عادت نہیں بنانی چاہیئے، حتی المقدور کھڑے ہوکر ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہیئے، تاہم  عذر کے بغیر بیٹھ کر تراویح ادا کرنے سے ، نماز ادا  ہوجائے گی۔

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"(وتكره قاعدا مع القدرة على القيام) لزيادة تأكدها.

وفي الخانية أداء التراويح قاعدا اتفقوا أنه لا يستحب بغير عذر واختلفوا في الجواز قال بعضهم: لا يجوز بغير عذر اعتبارا بسنة الفجر.

وقال بعضهم: يجوز وهو الصحيح بخلاف سنة الفجر فإنه قد قيل: إنها واجبة إلا أن ثوابه يكون على النصف من صلاة القائم."

( باب الوتر و النوافل، فصل في التراويح، ١ / ١٣٧، ط: دار إحياء التراث العربي)

رد المحتار علي الدر المختار میں ہے:

"(وتكره قاعدا) لزيادة تأكدها، حتى قيل لا تصح (مع القدرة على القيام) كما يكره تأخير القيام إلى ركوع الإمام للتشبه بالمنافقين.

(قوله وتكره قاعدا) أي تنزيها، لما في الحلية وغيرها من أنهم اتفقوا على أنه لا يستحب ذلك بلا عذر لأنه خلاف المتوارث عن السلف."

( كتاب الصلاة، باب الوتر النوافل، ٢ / ٤٧ - ٤٨، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں