بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں قرآن مجید سنانے کی اجرت لینے کا حکم


سوال

تراویح میں قرآن مجید  پڑھنے کی اجرت لینا یعنی مٹھائی کی شکل میں یا کپڑوں کی شکل میں آیا یہ جائز ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں تراویح پڑھانے کی اگر کوئی اجرت طے نہ کی گئی ہو، اور حافظ صاحب کی طرف سے مطالبہ بھی نہ ہو اور ختمِ قرآن کے موقع پر حافظ صاحب کو اگر کوئی انفرادی طور پر  خوشی سے ہدیہ دینا چاہے تو دے سکتا ہے اور وہ لینا دینا جائز ہے۔ طے کرکے اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وأن القراءة لشيء من الدنيا لا تجوز، وأن الآخذ والمعطي آثمان لأن ذلك يشبه الاستئجار على القراءة، ونفس الاستئجار عليها لا يجوز، فكذا ما أشبهه"۔

 (رد المحتار،‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب قضاء الفوائت،مطلب في بطلان الوصية بالختمات والتهاليل،ج:2،ص:73،ط:دار الفكر - بيروت)

کفایت المفتی میں ہے:

"عنوان:تراویح پڑھانے والے کی اجرت اور شبینہ کا حکم:

سوال:تراویح میں قرآن شریف سنانےوالےحافظ کو اجرت دینا جائز ہےیا ناجائز؟اگرجائز ہےتو تعین کےساتھ یا بلاتعین؟

جواب:بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔"

(کتاب الصلاۃ،396/3،ط:دارالاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"عنوان:تراویح پڑھانےوالےکوخوشی سےہدیہ پیش کیا جائے تو وہ قبول کرسکتاہےیانہیں؟

سوال:احقر ہمت نگر میں سات سال سےتراویح پڑھاتاہےمگرالحمدللہ کبھی بھی پیسےوغیرہ کچھ بھی نہیں لیے،لوگ بھی بہت خوش ہیں امسال وہ خوشی سے کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہتےہیں تو میں یہ ہدیہ لےکرغریب کو دےسکتاہوں یا نہیں؟یا اپنےاستعمال میں لاسکتاہوں؟نیز میں ظہر کی نماز بھی روزانہ پڑھاتاہوں،بینوا وتوجروا۔

جواب:آپ سات سال سے تراویح پڑھاتےہیں اور ہدیہ نہیں لیتے،اگرامسال بھی اسی جگہ تراویح پڑھارہےہیں اوروہ خوشی سےکچھ پیش کرنےپرمصرہیں تو قبول کرسکتےہو کہ محض ہدیہ ہے،قبل ازیں سات سال تک لینے دینے کا سلسلہ نہیں رہایہ اس کی دلیل ہے،اگر نئی جگہ ہےتو قبول نہ کیا جائے کہ ہدیہ نہیں بلکہ اجرت پیش کی جارہی اس لیے کہ لوگ اجرت دینےکےعادی ہیں لہذا قبول نہ کیاجائے،غریب کو دینےکی نیت سے بھی نہ لیاجائے۔"

(کتاب الصلاۃ،مسائل تراویح،243/6،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں