بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹرانسپلانٹ کا حکم


سوال

ٹرانسپلانٹ  کروانا  کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ انسان کا جسم  اور اس کے تمام اعضا اور ہر ہر چیز  خالص اللہ تعالی کی ملکیت ہے،لہذا انسان کو اپنے جسم اور اعضاء سے  صرف اپنے لیے کام لینے اور  نفع اٹھانے کی اجازت ہے،صرف اس حد تک جس کی اللہ تعالی نے اجازت دی ہے،لہذا کوئی انسان اگر خودکشی کرنا   یا اپنے اعضاء کسی اور کو دینا ( ڈونیٹ  کرنا )  چاہے،اپنی زندگی میں یا اپنی موت کے بعد تو شرعاً ایسا  نہیں کرسکتا،اگر کرے تو گناہ گار ہوگا، کیوں  کہ کوئی بھی انسان   اپنے  جسم کا مالک  نہیں ہے، اور اللہ تعالی نے خودکشی  کرنے کی اور اپنے اعضا کسی اور کو دینے (ڈونیٹ کرنے )کی اجازت نہیں  دی ہے، نیز دین و اسلام میں جس طرح  زندہ انسان محترم ہے بالکل اسی طرح مردہ انسان کی بھی معزز و مکرم  ہے، لہذا زندہ اور مردہ دونوں کے اعضا کسی اور کو نہیں لگاۓ جا سکتے۔

چناں چہ فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ خودکشی کے بارے میں حدیث کی شرح   میں  لکھتے ہیں:

"‌ويؤخذ منه ‌أن ‌جناية ‌الإنسان على نفسه كجنايته على غيره في الإثم لأن نفسه ليست ملكا له مطلقا بل هي لله تعالى فلا يتصرف فيها إلا بما أذن له فيه."

(كتاب القدر،قوله باب من حلف على الشيء،539/11،ط:دار المعرفة - بيروت)

ترجمہ:" اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ  خودکشی کرنا اور اپنے آپ کو ہلاک کرنا ایسا گناہ ہے، جیساکہ دوسرے کو ہلاک کرنا گناہ ہے،کیوں کہ انسان کا جسم و جان  اس کی ملک نہیں ہے،کہ جب چاہے اس کو ہلاک کرے ،بلکہ انسان کا جسم وجان خالص اللہ تعالی کی ملک ہے،انسان کو بطریق اباحت صرف اس سے  اپنے لیے کام لینے، اور اس سے اپنے واسطے نفع حاصل کرنےے کی اجازت ہے، اور انتفاع بھی اس حد تک جس کی اللہ تعالی نے اجازت  دی ہو۔"

حديث میں ہے:

"عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كسر ‌عظم ‌الميت ككسره حيا."

(سنن ابن ماجة،كتاب الجنائز،باب في النهي عن كسر عظام الميت516/1،دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:" نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مردہ انسان کی ہڈی توڑنے میں ایسا گناہ ہے جیسا کہ زندہ انسان کی ہڈی توڑ نے میں گناہ ہے۔"

اس حدیث کی شرح کرتے ہوے ملا علی قاری رحمہ اللہ  مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ تحریر فرماتے ہیں:

"«كسر عظم الميت ‌ككسره ‌حيا» يعني في الإثم كما في رواية. قال الطيبي: إشارة إلى أنه لا يهان ميتا، كما لا يهان حيا. قال ابن الملك: وإلى أن الميت يتألم. قال ابن حجر: ومن لازمه أنه يستلذ بما يستلذ به الحي اهـ. وقد أخرج ابن أبي شيبة عن ابن مسعود قال: أذى المؤمن في موته كأذاه في حياته." (رواه مالك وأبو داود)

(كتاب الجنائزباب دفن الميت،1226/3،دار الفكر، بيروت)

‌‌ترجمہ:" نبی کریم صلی اللہ  علیہ وسلم کی حدیث  " «كسر عظم الميت ‌ككسره ‌حيا» " کا مطلب زندہ آدمی کی ہڈی توڑ نا جس طرح گناہ ہے،اسی طرح مردہ کی ہڈی توڑنا بھی گناہ ہے، یعنی حکم میں دونوں برابر ہیں ، طیبی شارح مشکوۃ  نے کہا کہ اس حدیث  میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح زندہ انسان کے اعضاء کو نقصان پہچاکر اس کی توہین اور تذلیل نہیں کی جاۓ گی،اسی طرح مردہ انسان کی قطع   برید کرکے توہین و تذلیل نہیں کی جاۓ گی،ابن الملک نے کہا جس طرح زندہ انسان کو قطع برید کرنے سے تکلیف ہوتی ہے،اسی طرح مردے کو بھی ہوتی ہے،ابن حجر  نے یہ کہا کہ اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ انسان زندگی میں جس چیز سے لذت حاصل کرتا ہے اور محفوظ ہوتا ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس چیز سے لذت حاصل کرتا ہے اور محفوظ ہوتا ہے۔"

مندرجہ بالاتمہید سے یہ بات واضح ہوگئی كہ انسان اپنے جسم اور اعضا كا  مالك نہيں ہے،لہذاكسی بھی انسان کے لیے اپنی زندگی میں یا زندگی کے بعد اپنے جسم يا اعضا كو لے كر  ايسا كوئی تصرف كرنا،یا تصرف کی وصیت کرنا  جس کی  الله تعالی نے اجازت نہ  دی ہو، وه جائز نہيں ہے۔ 

واضح  رہے کہ ٹرانسپلانٹ عموما دوقسموں پرہے:

1۔بالوں کا ٹرانسپلانٹ  2۔ اعضا کا ٹرانسپلانٹ

ان دونوں میں ہر ایک  قسم، اگر کوئی شخص اپنے بال یا عضو اپنی زندگی میں  کسی اور کو  دے تاکہ وہ  اپنے جسم  میں اس کا ٹرانسپلانٹ کرواۓ، یا  وصیت کرے میرے مرنے کے بعد میرے  تمام اعضاء ڈونیٹ کردینا تا کہ دوسرے اپنے مطلوبہ عضو لے کر ٹرانسپلانٹ کرواۓ، یا کوئی شخص کسی اور کے  بال یا اعضا لے کر اپنے جسم میں ٹرانسپلانٹ کرواۓ، یہ تمام کی تمام صورتیں ناجائز ہیں۔

البتہ اگر کوئی شخص  اپنے ہی جسم  کے کسی مقام کے بالوں کا اپنے سر میں ٹرانسپلانٹ کرواۓ، یا اپنے اعضا میں سے کسی عضو  کا اپنے ہی  جسم میں ٹرانسپلانٹ کرواۓ (جیسا کہ بائی پاس میں ہوتا ہے، ایک مقام سے رگ لے کر دوسرے مقام پر لگائی جاتی ہے) تو یہ صورت جائز ہے،یعنی جب دینے والا اور لینے والا فرد واحد ہو۔

بدائع الصنائع فی ترتيب الشرائع میں ہے:

"والثاني: أن استعمال جزء منفصل عن غيره من بني آدم إهانة بذلك الغير والآدمي بجميع أجزائه مكرم ولا إهانة في استعمال جزء نفسه في الإعادة إلى مكانه."

(كتاب البيوع،بيان ركن البيع،5/ 133،ط:سعيد)

فتح القدير ميں ہے:

"وحرمة ‌الانتفاع ‌بأجزاء ‌الآدمي لكرامته ولا يخفى أن هذا مقام آخر غير طهارته بالدباغ وعدمها فلذا صرح في العناية بأنه إذا دبغ جلد الآدمي طهر لكن لا يجوز الانتفاع به كسائر أجزائه."

(‌‌كتاب الطهارات،‌‌باب الماء الذي يجوز به الوضوء وما لا يجوز،93/1،ط: دار الفكر، لبنان)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الانتفاع ‌بأجزاء ‌الآدمي لم يجز قيل للنجاسة وقيل للكرامة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."

(كتاب الكراهية،الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات،354/5،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لو سقط سنه يكره أن ‌يأخذ ‌سن ‌ميت فيشدها مكان الأولى بالإجماع وكذا يكره أن يعيد تلك السن الساقطة مكانها عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله ولكن يأخذ سن شاة ذكية فيشدها مكانها وقال أبو يوسف - رحمه الله - لا بأس بسنه ويكره سن غيره."

(كتاب البيوع،بيان ركن البيع،5/ 132،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں