شریعت میں Transgenders کی کیا حیثیت ہے اور کیا حکم ہے؟
نیز ہیجڑا خنثیٰ وغیرہ اور اس جیسی دیگر اصطلاحات میں کیا فرق ہے؟ کس کو شریعت میں Transgenders مانا جائے گا اور کس کو نہیں؟
ٹرانس جینڈر کا مطلب ہے: "وہ افراد جو پیدائشی طور پر جنسی اعضاء اور علامات کے اعتبار سے خالص مرد کی مکمل صفات رکھتے ہوں یا خالص عورت کی مکمل صفات رکھتے ہیں، مگر بعد میں کسی مرحلے پر مرد اپنے آپ کو عورت اور عورت اپنے آپ کو مرد بنانے کی خواہش رکھے۔"
دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ ٹرانس جینڈر (Transgender) وہ شخص ہے جو اپنے بارے میں اُس صنفی شناخت (gender identity) کا قائل نہیں ہوتا جو جنس (biological sex) اس کے پیدا ہونے کے وقت مقرر اور متعین کی گئی تھی۔
مثال کے طور پر: اگر کوئی شخص پیدائش کے وقت مرد کے طور پر متعین کیا گیا تھا لیکن بعد میں وہ خود کو عورت محسوس کرتا ہے، تو وہ شخص ٹرانس وومن (trans woman) کہلائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص پیدائش کے وقت عورت کے طور پر متعین کیا گیا تھا لیکن وہ خود کو مرد محسوس کرتا ہے، تو وہ شخص ٹرانس مین (trans man) کہلائے گا۔
تبدیلی جنس سے متعلق شریعت نے انسان کی اپنی خواہش اور چاہت کا کوئی اعتبار نہیں کیا، بلکہ پیدائش کے موقع پر ہی ظاہری اعضاء کی بنیاد پر کسی بھی شخص کی جو جنس مقرر کی جائے گی وہی حتمی سمجھی جائے گی، اپنی چاہت اور خواہش کی بنیاد پر مرد کا اپنے آپ کو عورت سمجھنا یا عورت کا اپنے آپ کو مرد سمجھنا اور اپنی جنس میں تبدیلی کروانا ،جائز نہیں۔
باقی اردو زبان میں خنثی یا ہیجڑا جس صنف کو بولا جاتا ہے اس کے لیے عربی زبان میں خنثیٰ یا مخنث کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، اور خنثیٰ وہ فرد ہوتا ہے جس میں مذکرو مؤنث دونوں جنس کی علامات پائی جائیں ، پھر اس کا حکم مندرجہ ذیل ہے:
ایسا بچہ جس میں پیدائشی طور پر مرد و زن کے اعضاء مخصوصہ موجود ہوں، اس کی جنس کے تعیین کا طریقہ فقہاء کرام نے یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ پیشاب مردانہ عضو سے کرتا ہو، تو اسے مذکر قرار دیا جائے گا، اور اگر زنانہ عضو سے کرتا ہو، تو اسے مؤنث قرار دیا جائے گا، اور اگر اس کا پیشاب دونوں عضو سے نکلتا ہو تو جس عضو سے پہلے پیشاب نکلتا ہو اس ہی کا اعتبار کرکے جنس کی تعیین ہوگی، اور اگر دونوں عضو سے پیشاب ایک ہی ساتھ نکلتا ہو تو اس صورت میں جس عضو سے زیادہ پیشاب نکلتا ہو، اسی کا اعتبار کرکے جنس کی تعیین کی جائے گی، البتہ اگر دونوں عضو سے برابر پیشاب آتا ہو تو ایسی صورت میں وہ نہ مذکر قرار پائے گا اور نہ ہی مؤنث، اسے بالغ ہونے تک خنثی مشکل قرار دیا جائے گا۔
بلوغت کے وقت اگر اسے مردوں کی طرح احتلام ہو یا وہ اپنے آلہ تناسل سے جماع پر قادر ہو تو اسے مرد قرار دیا جائے گا، اسی طرح اگر وہ جماع پر تو قادر نہ ہو لیکن اس کی داڑھی نکل آئے، یا اس کا سینہ مردوں کی طرح ابھار کے بغیر ہو تو ان تمام صورتوں میں وہ مرد کے حکم میں ہوگا، البتہ اگر اس کو حیض آجائے، یا عورت کی طرح اس سے ہم بستری ممکن ہو، یا اس کا سینہ خواتین کے سینہ کی طرح ابھر جائیں، یا اس کے پستانوں میں دودھ آجائے، ان تمام صورتوں میں وہ خواتین کے حکم میں ہوگا، اور اگر مذکورہ بالا مرد و زن میں فرق کی علامتوں میں سے فرق کرنے والی علامت ظاہر نہ ہو تو اسے خنثی مشکل قرار دیا جائے گا۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
"فِطْرَتَ اللّٰه الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيها ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰه." (الروم:30)
ترجمہ: "اللہ کی دی ہوئی قابلیت کا اعتبار کرو، جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو ، جس پر اس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے، بدلنا نہ چاہیے۔" (بیان القرآن)
بخاری شریف میں ہے:
"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال».
(كتاب اللباس ، باب: المتشبهون بالنساء، والمتشبهات بالرجال ، جلد : 7 ، صفحه : 159 ، طبع : السلطانية)
یعنی: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں۔"
نیز بخاری شریف میں ہے:
"عن ابن عباس، قال: لعن النبي صلى الله عليه وسلم المخنثين من الرجال، والمترجلات من النساء، وقال: اخرجوهم من بيوتكم."
(كتاب اللباس ، باب: المتشبهون بالنساء، والمتشبهات بالرجال ، جلد : 7 ، صفحه : 159 ، طبع : السلطانية)
یعنی: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت فرمائی جو عورتوں کی وضع اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مردوں کی وضع اختیار کرتی ہیں، اور فرمایا: انہیں اپنے گھروں سے نکال دو۔"
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بمخنث قد خضب يديه ورجليه بالحناء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «ما بال هذا؟» فقيل: يا رسول الله، يتشبه بالنساء، فأمر به فنفي إلى النقيع."
(كتاب الادب ، باب في الحكم في المخنثين ، جلد : 4، صفحه : 282 ، طبع : المكتبة العصرية)
یعنی:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مخنث لایا گیا، جس کے ہاتھ اور پاؤں پر مہندی لگی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ عورتوں سے مشابہت کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مدینہ منورہ سے نکالنے کا حکم دیا۔ "
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"يجب أن يعلم بأن الخنثى من يكون له مخرجان قال البقالي - رحمه الله تعالى - أو لا يكون له واحد منهما ويخرج البول من ثقبة ويعتبر المبال في حقه، كذا في الذخيرة فإن كان يبول من الذكر فهو غلام، وإن كان يبول من الفرج فهو أنثى، وإن بال منهما فالحكم للأسبق، كذا في الهداية وإن استويا في السبق فهو خنثى مشكل عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -؛ لأن الشيء لا يترجح بالكثرة من جنسه، وقالا: ينسب إلى أكثرهما بولا وإن كان يخرج منهما على السواء فهو مشكل بالاتفاق، كذا في الكافي قالوا: وإنما يتحقق هذا الإشكال قبل البلوغ، فأما بعد البلوغ والإدراك يزول الإشكال فإن بلغ وجامع بذكره فهو رجل، وكذا إذا لم يجامع بذكره ولكن خرجت لحيته فهو رجل، كذا في الذخيرة وكذا إذا احتلم كما يحتلم الرجل أو كان له ثدي مستو، ولو ظهر له ثدي كثدي المرأة أو نزل له لبن في ثدييه أو حاض أو حبل أو أمكن الوصول إليه من الفرج فهو امرأة، وإن لم تظهر إحدى هذه العلامات فهو خنثى مشكل، وكذا إذا تعارضت هذه المعالم، كذا في الهداية وأما خروج المني فلا اعتبار له؛ لأنه قد يخرج من المرأة كما يخرج من الرجل، كذا في الجوهرة النيرة قال: وليس الخنثى يكون مشكلا بعد الإدراك على حال من الحالات؛ لأنه إما أن يحبل أو يحيض أو يخرج له لحية أو يكون له ثديان كثديي المرأة، وبهذا يتبين حاله وإن لم يكن له شيء من ذلك فهو رجل؛ لأن عدم نبات الثديين كما يكون للنساء دليل شرعي على أنه رجل، كذا في المبسوط لشمس الأئمة السرخسي - رحمه الله تعالى -."
(كتاب الخنثيٰ ، الفصل الاول ، جلد : 6 ، صفحه : 437-438 ، طبع : دار الفكر)
بدائع الصنائع ميں هے:
"فالخنثى من له آلة الرجال و النساء، و الشخص الواحد لايكون ذكرًا و أنثى حقيقةً، فإما أن يكون ذكرًا، وإما أن يكون أنثى."
[فصل في بيان ما يعرف به الخنثى أنه ذكر أو أنثى]
(فصل) :
وأما بيان ما يعرف به أنه ذكر، أو أنثى، فإنما يعرف ذلك بالعلامة، وعلامة الذكورة بعد البلوغ نبات اللحية، وإمكان الوصول إلى النساء وعلامة الأنوثة في الكبر نهود ثديين كثديي المرأة ونزول اللبن في ثدييه والحيض والحبل، وإمكان الوصول إليها من فرجها؛ لأن كل واحد مما ذكرنا يختص بالذكورة والأنوثة فكانت علامة صالحة للفصل بين الذكر والأنثى.
و أما العلامة في حالة الصغر فالمبال، لقوله عليه الصلاة والسلام: «الخنثى من حيث يبول» ، فإن كان يبول من مبال الذكور فهو ذكر، وإن كان يبول من مبال النساء فهو أنثى " وإن كان يبول منهما جميعا يحكم السبق؛ لأن سبق البول من أحدهما يدل على أنه هو المخرج الأصلي وأن الخروج من الآخر بطريق الانحراف عنه."
(كتاب الخنثي ، جلد : 7 ، صفحه : 327 ، طبع : دار الكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144606100733
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن