بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 جُمادى الأولى 1446ھ 02 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹرین میں نماز کےلیے قبلہ کا حکم


سوال

ٹرین میں قطب نما نہ ہونے کی وجہ سے عشاء وفجر کی نمازیں ایک ہی رخ پر  پڑھ لیں،  کیا نمازیں درست ہوگئیں؟

جواب

واضح رہے کہ قبلہ رُخ ہونا ہر نماز کےلیے جدا شرط ہے، اور انسان اگر ایسی جگہ پر ہو جہاں قبلہ کا رُخ معلوم نہ ہو، تو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہاں کسی بتانے والے سے پوچھ لے، اگر کوئی بتانے والا نہ ہو تو وہاں آس پاس کی علامات مساجد، مقبرے وغیرہ سے معلوم کرلے، اگر ایسی جگہ ہو کہ کوئی علامت بھی نہ ہو تو پھر اپنے طور پر غور وفکر کرکے اندازہ لگاکر کوئی رُخ متعین کرکے اس کی طرف نماز پڑھے۔

ٹرین کےلیے بھی یہی حکم ہے کہ اگر وہاں موجود مسافر یا عملہ میں سے کسی کو علم ہو تو ان سے معلوم کیا جائے، ورنہ آس پاس مساجد مقبرے وغیرہ راستہ میں ہوں تو ان کو دیکھ کر اندازہ لگالیاجائے، اگر ایسی کوئی علامت نہ ہو، یا اندھیرے میں ان سے اندازہ لگانا ممکن ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں لازم ہے کہ غور وفکر کرکے کوئی ایک سمت متعین کرکے نماز پڑھی جائے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کو دونوں نمازوں میں یا کسی ایک میں ایسی صورت پیش آئی ہوکہ نہ وہاں کسی مسافر یا عملہ کو قبلہ کا علم تھا، نہ کوئی علامت یا آلہ ایسا تھا  جس سے معلوم کرتے تو پھر لازم تھا کہ غور وفکر کرکے اندازہ سے کوئی رُخ متعین کرکے نماز پڑھی جاتی، اور اگر کسی نےواقعی ترتیب وار مذکوہ ساری کوششیں کی ہیں، اور پھر غوروفکر کرکے کوئی رُخ متعین کرکے نماز پڑھی ہے  تو نماز ہوگئی ہے، لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، اگرچہ بعد میں اس رُخ کا غلط ہونا بھی معلوم ہوا ہو۔

اور  اگر کسی سے پوچھا ہی نہیں، یا پوچھا لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا، اور وہاں کوئی علامت وغیرہ بھی نہیں تھی جس سے اندازہ لگایا جاتا، اور کوئی غوروفکر بھی نہیں کیا تو پھر اگر بعد میں یہ معلوم ہوگیا تھا کہ درست جہت پر نماز پڑھی ہے پھر تو نماز درست ہوگئی، لیکن اگر رُخ کا غلط ہونا معلوم ہوگیا، یا کچھ پتا ہی نہ چلا کہ درست سمت پر نماز پڑھی یا غلطی ہوگئی تو پھر نماز کو دہرانا لازم ہے۔

یہ تفصیلی حکم عشاء وفجردونوں نمازوں کےلیے ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويتحرى) هو بذل المجهود لنيل المقصود (عاجز عن معرفة القبلة) بما مر (فإن ظهر خطؤه لم يعد) لما مر (وإن علم به في صلاته أو تحول رأيه) ولو في سجود سهو (استدار وبنى)..........

مطلب مسائل التحري في القبلة(قوله هو) أي التحري المفهوم من فعله (قوله بما مر) متعلق بمعرفة، والذي مر هو الاستدلال بالمحاريب والنجوم والسؤال من العالم بها، فأفاد أنه لا يتحرى مع القدرة على أحد هذه، حتى لو كان بحضرته من يسأله فتحرى ولم يسأله إن أصاب القبلة جاز لحصول المقصود وإلا فلا لأن قبلة التحري مبنية على مجرد شهادة القلب من غير أمارة وأهل البلد لهم علم بجهة القبلة المبنية على الأمارات الدالة عليها من النجوم وغيرها فكان فوق الثابت بالتحري،وكذا إذا وجد المحاريب المنصوبة في البلدة أو كان في المفازة والسماء مصحية وله علم بالاستدلال بالنجوم لا يجوز له التحري لأن ذلك فوقه، وتمامه في الحلية وغيرها.واستفيد مما ذكر أنه بعد العجز عن الأدلة المارة عليه أن يتحرى ولا يقلد مثله لأن المجتهد لا يقلد مجتهدا، وإذا لم يقع تحريه على شيء فهل له أن يقلد؟ لم أره (قوله فإن ظهر خطؤه) أي بعدما صلى (قوله لما مر) وهو كون الطاعة بحسب الطاقة (قوله وإن علم به) أي بخطئه فافهم (قوله أو تحول رأيه) أي بأن غلب على ظنه أن الصواب في جهة أخرى فلا بد أن يكون اجتهاده الثاني أرجح، إذ الأضعف كالعدم، وكذا المساوي فيما يظهر ترجيحا للأول بالعمل عليه تأمل. (قوله استدار وبنى) أي على ما بقي من صلاته، لما روي  أن أهل قباء كانوا متوجهين إلى بيت المقدس في صلاة الفجر فأخبروا بتحويل القبلة فاستداروا إلى القبلة، وأقرهم النبي صلى الله عليه وسلم على ذلك  وأما إذا تحول رأيه فلأن الاجتهاد المتجدد لا ينسخ حكم ما قبله في حق ما مضى شرح المنية، وينبغي لزوم الاستدارة على الفور، حتى لو مكث قدر ركن فسدت."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، 1/ 433، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وإن اشتبهت عليه القبلة وليس بحضرته من يسأله عنها اجتهد وصلى. كذا في الهداية.......ولو كان بحضرته من يسأله عنها فلم يسأله وتحرى وصلى فإن أصاب القبلة جاز وإلا فلا. كذا في منية المصلي وهكذا في شرح الطحاوي وحد الحضرة أن يكون بحيث لو صاح به سمعه. كذا في الجوهرة النيرة...........ولو شك ولم يتحر وصلى من غير تحر فإن زال الشك في الصلاة بأن أصاب وأخطأ يستقبل الصلاة وإلا فإن ظهر الخطأ بعد الفراغ أو لم يظهر شيء يعيد وإن ظهرت الإصابة مضى الأمر هكذا في الخلاصة."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، الفصل الثالث في استقبال القبلة، 1/ 71، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144603103231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں