بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹریڈ مارک کی خریدوفروخت کا حکم


سوال

ٹریڈ مارک اور کاروبار کا نام جو کہ رجسٹرڈ کرواۓ جاتے ہیں اور رجسٹریشن فیس بھی دی جاتی ہے اور پھر رجسٹریشن کرانے والے  اس نام کے مالک بن جاتے ہیں ،کیا اس نام اور ٹریڈ مارک کو بیچنا یا خریدنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ آج  کل کی اصطلاح میں کاروبار دکان،اور کمپنی وغیرہ کے نام یا ٹریڈ مارک  "گڈول"میں شامل ہےشرعاً یہ مال نہیں ہے، شریعت کی رو سے  اس کی کوئی الگ قیمت  نہیں ہے اگرچہ دنیوی قانون میں اس کو مالی حیثیت حاصل ہےاور اس پر رجسٹریشن فیس بھی وصول کی جاتی ہے ، لیکن شریعت کی رو سے یہ صحیح نہیں ہے؛ اس لیے  مستقل طور پرگڈول/ٹریڈ مارک  فروخت کر کے معاوضہ لینا جائز نہیں ہے،البتہ دکان،یاادارے کے تابع بناکر دکان یا ادارے کی قیمت زیادہ مقررکرنا صحیح ہے ۔

البحر الرائق میں ہے :

"وفي الكشف الكبير ‌المال ‌ما ‌يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة".

(کتاب البیع،ج:5،ص:277،دارالکتاب الاسلامی)

در مختار  میں ہے:

"وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف، وفيها في آخر بحث تعارض العرف مع اللغة. المذهب عدم اعتبار العرف الخاص لكن أفتى كثير باعتباره وعليه فيفتى بجواز النزول عن الوظائف بمال."

( فتاوی شامی ،کتاب البیوع،مطلب فی بیع الجامکیۃ،ج:4،ص:518،سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

’’گڈول یعنی ’’نام‘‘ درحقیقت مال نہیں،  بلکہ بمنزلہ حیثیت عرفیہ کی ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں، قانون نے اس کو جوکچھ حیثیت دی ہے، وہ شریعت کی رو سے فتویٰ لے کر نہیں دی ہے، اس لیے یہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کرلیاجائے، جوبھائی حکمِ شرع کی قدر کرتے ہوئے عمل کرے گا ان شاء اللہ نقصان میں نہیں رہے گا، ایثار سے کام لینا دنیا وآخرت میں بہت زیادہ عزت ومنفعت کا ذریعہ ہے‘‘۔

(ج:۱۶،ص:۱۷۸،فاروقیہ)

امداد الاحکام میں ہے :

’’محض اس قانون کے مشہور ہونے سے قرض خواہوں کا حق عنداللہ ساقط نہ ہوگا اور حقوق گڈول کی تنہا قیمت کچھ نہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ حقوق گڈول کی وجہ سے مجموعی دوکان کی قیمت زیادہ شمار کی جائے، مگر چوں کہ تنہا یہ حقوق شرعاً  قیمتی نہیں؛ اس لیے یہ جائز نہیں کہ ایک شریک کو صرف حقوقِ گڈول کی وجہ سے ایک لاکھ کا شریک مانا جائے، بلکہ اس کی طرف تھوڑا بہت مال بھی ہو جس کی قیمت حقوق گڈول کی وجہ سے زیادہ شمار کی جائے‘‘.

(ج:۴،ص:۴۵۲،دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144405101658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں