بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

توضیحات شرح مشکاۃ میں روایت: اللهم ارحم خلفائي ...إلخ کے حوالہ کی تحقیق


سوال

 آپ کے ادارے کے مولانا فضل محمد یوسف زئی صاحب نے مشكاۃشریف کی شرح لکھی ہے ،جس کے دیباچے میں انہوں نے ایک حدیث پاک: اللّهم ارحمْ خُلفائي ... إلخذکرکی ہے،  اس حدیث کاجو حوالہ انہوں نے دیا  ہےاس میں  یہ حدیث موجود نہیں ہے، اگر آپ کے پاس  اس کی تحقیق ہے تو ارسال فرما دیں۔

جواب

اولاً  حضرت مولانا فضل محمد  یوسف زئی  مد ظلهم كي كتاب "توضيحات شرح مشكاة"کی عبارت ملا حظہ ہو:

"علم ِ حدیث او رمحدثین کی فضیلت:

سب سے بڑی فضیلت توخود یہ ہے کہ ایک شیخ الحدیث گھنٹو ں گھنٹوں تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر روزانہ درود کا ورد کرتا رہتا ہے ، یہ بہت بڑی فضیلت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے محدثین کو خاص ڈگری دی ہے،فرمایا:"اللّهم ارحمْ خُلفائي، قُلنا: يا رسولَ الله، ومَن خُلفاؤك؟ قال: الذين يأتُون مِن بعدي، يروُون أحاديثي ويعلِّمونها الناس". (ترمذي. مشكاة، ص:35)

قال عليه الصّلاة والسّلام: "نضّر اللهُ عبداً سمِع مقالتي فحفِظها ووَعاها وأدَّاها، فرُبَّ حاملِ فِقهٍ غيرُ فقِيهٍ، ورُبَّ حاملِ فِقهٍ إلى مَن هو أَفقهُ منه". (طبراني أوسط، مجمع الزوائد)".

(توضيحات شرح مشكاة، 1/61، ط:المكتبة العربية)

مذکورہ عبارت میں  محدثین کی فضیلت سے متعلق دوحدیثیں مذکورہیں:

1.پہلی حدیث  : اللهم ارحمْ خُلفائي ... إلخہے،جس کے حوالہ میں"ترمذي" او ر"مشكاة (ص:35)" مذکور ہے، اس روایت  کے  متعلق آپ نے سوال میں ذکر کیا ہےکہ مذکورہ حوالہ میں  یہ حدیث موجود نہیں ہے۔ 

2.دوسری حدیث: نضّر اللهُ عبداً سمِع مقالتي ... إلخ ہے،جس کے حوالہ میں"طبراني أوسط"او ر"مجمع الزوائد"مذکور ہے۔

مذکورہ دونوں حدیثوں کے حوالہ جات  کی مراجعت کرنے سے  معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں حدیثوں کا حوالہ  نقل کرنے  میں  کمپوزر اور مصحح سے  تسامح ہوگیاہے،  پہلی حدیث کا حوالہ ، دوسری حدیث کے بعد  اوردوسری حدیث کا حوالہ، پہلی حدیث کے بعد نقل ہوگیا ہے، یعنی پہلی حدیث کے بعدحوالہ میں"ترمذي" او ر"مشكاة (ص:35)" مذکور ہے، جب کہ یہ حدیث "ترمذي" اور "مشكاة(ص:35)"پر نہیں ،بلکہ "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"( كتاب العلم، باب في فضل العلم ومجالستهم، ج:1، ص:126، رقم الحديث:521، طبع:مكتبة القدسي-القاهرة) میں بحوالہ"طبراني أوسط"مذکور ہے ، اور دوسری حدیث کے بعد حوالہ میں"طبراني أوسط"او ر"مجمع الزوائد"مذکور ہے ، جب کہ یہ حدیث "طبراني أوسط"او ر"مجمع الزوائد"میں نہیں،بلکہ "مشكاة المصابيح"(كتاب العلم، الفصل الثاني، ج:1، ص:35، رقم الحديث:214، طبع:مكتبة رحمانية)میں بحوالہ ترمذی ودیگر کتب مذکور ہے۔ملاحظہ ہو:

"مجمع الزوائد ومنبع الفوائد"میں ہے:

وعَن ابن عباسٍ-رضي الله عنهما- قال: قال النبيُّ - صلّى الله عليه وسلّم-: اللهم ارحمْ خُلفائي، قُلنا: يا رسولَ الله، ومَن خُلفاؤك؟ قال: الذين يأتُون من بعدي، يروُون أحاديثي ويعلِّمونها الناس.

رواه الطبرانيُّ في الأوسط، وفيه أحمدُ بنُ عيسى بن عبد الله الهاشميُّ، قال الدارقُطنيُّ: كذّابٌ".

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، كتاب العلم، باب في فضل العلم ومجالستهم، 1/126، رقم:521، ط:مكتبة القدسي-القاهرة)

ترجمہ:

’’حضرت(عبد اللہ) ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے اللہ! میرے خلفاء پر رحم فرما!ہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!آپ کے خلفاء کون ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(میرے خلفاء) وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے، میری  احادیث کو روایت کریں گےاور اُنہیں لوگوں کو سکھائیں گے‘‘۔

"مشكاة المصابيح"میں ہے:

وعن ابن مسعود-رضي الله عنه- قال: قال رسولُ الله -صلّى الله عليه وسلّم: نضّر اللهُ عبداً سمِع مَقالتي فحفِظها ووَعاها وأدَّاها، فرُبَّ حاملِ فِقهٍ غيرُ فقيهٍ، ورُبَّ حاملِ فِقهٍ إلى من هو أفقهُ منه. ثلاثٌ لا يغِلُّ عليهنَّ قلبُ مُسلمٍ: إخلاصُ العملِ لله، والنَّصيحةُ للمسلمين، ولزومُ جماعتهم؛ فإن دَعْوتَهم تُحِيط مِن ورائهم .

رواه الشافعيُّ والبيهقيُّ في المدخل، ورواه أحمدُ والترمذيُّ وأبو داودَ وابنُ ماجهْ والدارميُّ عن زيدِ بنِ ثابتٍ، إلا أنّ الترمذيَّ وأبا دوادَ لم يذكرا: ثلاثٌ لا يغِلُّ عليهنَّ ... إلى آخرِه".

(مشكاة المصابيح، كتاب العلم، الفصل الثاني، 1/35، رقم:214، ط:مكتبة رحمانية)

ترجمہ:

’’حضرت (عبد اللہ) ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالی اُس بندے کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی بات سنی ،اُسے یاد کیااو رمحفوظ رکھا،پھر اُس کو (جیسا سنا ہو، ہوبہو) لوگوں تک پہنچایا  ، کیوں  کہ بعض حاملِ فقہ (یعنی علمِ دین کے حاصل کرنے والے)فقیہ(یعنی سمجھ دار)نہیں ہوتے، اور بعض حاملِ فقہ اُن لوگوں تک پہنچادیتے ہیں جو اُن سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں۔تین چیزیں ایسی ہیں جن میں مسلمان کا دل خیانت نہیں کرتا:۱۔عمل خاص طور پر خدا کے لیے کرنا،۲۔اورمسلمانوں کے ساتھ بھلائی کرنا،۳۔اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنا؛ اس لیے کہ جماعت کی دعاء اُن کو چاروں طرف سے  گھیرے ہوئے ہے‘‘۔

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101815

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں