بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

توبہ کے بعد گناہ کے وبال کا حکم


سوال

ایک شخص ریئل سٹیٹ کمپنی میں کام کرتا رہا جس کا کام کمپنی کے لئے کلائنٹ لانا تھا۔اگر کو ئی شخص دس لاکھ روپے انوسٹ کرتا تو کمپنی اُس ملازم کو 25000 روپے کمیشن دیتی۔ یہ کمپنی لوگو ں سے رقم لے کر انوسٹمنٹ کرتی ہے اور بعد میں منافع دیتی ہے۔ علماء سے فتوی ٰ لینے پر معلوم ہوا کہ مذکورہ کمپنی جو منافع دے رہی ہے وہ سود ہے۔۔۔لیکن کام کرنے والے اس ملازم کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ کمپنی کا منافع سود ہے۔ جب مذکورہ ملاز م کو یہ بات پتہ چلی تو اُس نے کمپنی چھوڑ دی۔۔۔ سوال یہ ہے کہ اس ملاز م کے بلانے پر آ نے والے جن لو گو ں کو انوسٹمنٹ کا منافع مل رہا ہے جو کہ سود ہے،، کیا اسکا وبال/گناہ اس ملاز م پر بھی ہوگا؟ اور کیا جب تک و ہ     لوگ منافع لیتے  رہینگے تو کیا اُسکا گناہ اس ملاز م کے ذمہ بھی ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ  جو شخص کسی دوسرے کی اچھائی کی طرف رہنمائی کردے تواسے بھی اس اچھائی  کا اجر ملتا ہے ،اورجو شخص کسی کو کسی برے عمل پر لگا دے تو اس لگانے والے کو بھی اس کا گناہ ملتا ہے  لیکن  اگر کوئی  گناہ کے کام سے توبہ کرلے اور پختہ ارادہ کرلےکہ کبھی وہ  نہ کرےگااورساتھ میں جتناہوسکےاس گناہ کےتدارک کی بھی کوشش کرے تو اس کا گناہ معاف ہوجاتا ہے۔لہذا اب جب آپ اس ناجائز روزگار سے توبہ تائب ہوچکے ہیں اور ملازمت بھی چھوڑ چکے ہیں توآپ نے جن لوگوں  کو اس ناجائز کاروبار میں لگایاتھا ان کو اطلاع دیں اور اس کاروبار کا ناجائز ہونا ان پر واضح کریں ،اس کے باجود اگر وہ لوگ پھر بھی اس کاروبار کو جاری رکھیں تو آپ پر کوئی وبال نہیں ہوگا۔اس کے ساتھ اس کاروبار کی وجہ سے آپ کو جتنا نفع ہوا ہے اتنی رقم صدقہ کردیں ۔بہرحال حتی الامکان لوگوں کو آگاہ کرنے،کمایا ہوا نفع صدقہ کرنے اور آیندہ نہ کرنے کے عزم کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالی اس گناہ کومعاف فرمادیں گے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالی کاارشادہے:

"  ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِن بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ."(النحل،119)

ترجمہ : "پھرآپ کارب ایسے لوگوں کیلئےجنہوں نےجہالت سےبراکام کرلیاپھراس کے بعدتوبہ کرلی اورآئندہ کیلئےاپنےاعمال درست کرلئیےتوآپ کارب اس توبہ کےبعدبڑی مغفرت کرنےوالابڑی رحمت کرنےوالاہے۔"

روح المعانی میں ہے:

"(وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ  ) "بیان لعدم إثابة الإنسان بعمل غیرہ إثربیان عدم مؤاخذته بذنب غیرہ."

(روح المعانی، ج27، ص387، ط: المکتبة الوحیدیة)

حدیث شریف میں ہے:

"التائب من الذنب کمن لا ذنب له."

(ابن ماجه، کتاب الزھد، باب ذکرالتوبة، ص323، ط: قدیمی)

الأشباہ والنظائرمیں ہے:

"إذا اجتمع المباشر والمتسبب أضیف الحکم إلی المباشر."

(الاشباہ والنظائر،ص81،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں