بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طوطے کا گوشت کھانے کا حکم


سوال

طوطا حلال ہے یا حرام؟  عالمگیری میں طوطے (ببغاء) کوغیر دموی پرندوں میں شمار کرکے حرام کہا گیا ہے، کیایہ مفتی بہ قول ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں راجح قول کے مطابق طوطا  حلال جانوروں میں سے ہے،اور اس کا کھانا جائز ہے، کیوں کہ طوطا ان پرندوں میں سے نہیں ہے جو  پنجوں سے شکار کرتے ہیں،جن  کی حرمت حدیث شریف  میں وارد ہوئی ہے، جیسے کہ باز، چیل اور شاہین وغیرہ ہیں، لہٰذا طوطے کاگوشت حلال ہے۔

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"سوال(11237):حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ؒ طوطے کو حلال کہتے ہیں ،تواس سے وہی لال چونچ والا طوطا مراد ہے ؟بینواتوجروا۔

الجواب حامداًومصلیاً! بس طوطا مراد ہے جوان اطراف میں ہوتاہے ،جس کو پال بھی لیتے ہیں اورآواز کی نقل اُتارنے کی اس میں صلاحیت ہے ،اوریہ روٹی پھل عام طورپرکھاتاہے ۔

فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم

حرر ہٗ العبد محمود غفرلہٗ دارالعلوم دیوبند ۷؍۸؍۱۴۰۰ھ؁"

(باب الانتفاع بالحیوانات، الفصل الاول فی الطیور، عنوان: طوطا حلال ہے، ج:24، ص:187، ط:ادارۃ الفاروق)

فتاویٰ دارالعلوم دیوبند(یعنی امداد المفتیین کامل)  میں ہے:

"سوال(831): طوطا حلال ہے یا حرام، زید کہتا ہے کہ وہ پنجہ سے ہر ایک چیز پکڑکے کھاتا ہے۔

جواب:طوطا بلاشبہ حلال ہے اور زید جو حرمت پر استدلال کرتا ہے، صحیح نہیں ہے، کیوں کہ ذی مخلب جانور جس کو حدیث شریف میں حرام فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ پنجہ سے پکڑکر کسی چیز کو کھائے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ جانور جو پنجہ سے شکار کرتا ہے،اور ظاہر ہے کہ طوطا شکاری جانور نہیں اور نہ ہی پنجہ سے جانور کا شکار کرتا ہے،قال فی الدر المختار: (ولا يحل) (ذو ناب يصيد بنابه) فخرج نحو البعير (أو مخلب يصيد بمخلبه) أي ظفره فخرج نحو الحمامة".(الدرّ المختار،کتاب الذبائح، ج:6، ص:304، ط:ایچ ایم سعید)۔اور حیوۃ الحیوان میں طوطے کے متعلق لکھا ہے:وليست من ذوات السموم ولا من ذوات المخلب، ولا أمر بقتلها ولا نهي عنه.(حیوۃ الحیوان، باب الباء الموحدۃ، ج:1، ص:109، ط:دارالکتب)۔

الغرض حنفیہ کے نزدیک بلاشبہ طوطا حلال ہے۔ حیوۃ الحیوان میں علامہ دمیری رحمہ اللہ نے ایک قول حرمت کا بھی نقل کیا ہے، مگر دمیری شافعی المذہب ہے، حنفیہ پر ان کا قول حجت نہیں، اورانہوں نے بھی دوسرا قول حلت کا نقل کیا ہے۔"

(کتاب الصید والذبائح، طوطا حلال ہے، ج:2، ص:769، ط:دارالاشاعت)

حیاۃ الحیوان للدمیری میں ہے:

"الببغاء: بثلاث باآت موحدات أولاهن وثالثتهن مفتوحتان والثانية ساكنة وبالغين المعجمة وهي هذا الطائر الأخضر المسمي بالمرة...

وقال القضاعي: للثغة كانت في لسانه، وهي في قدر الحمام يتخذها الناس للانتفاع بصوتها، كما يتخذون الطاووس للانتفاع بصوته ولونه...

الحكم: يحرم أكلها على الأصح في الرافعي، ونقله في البحر عن الصيمري، وأقره وعلل ذلك بخبث لحمها، وقيل: حلال لأنها تأكل من الطيبات، وليست من ذوات السموم ولا من ذوات المخلب، ولا أمر بقتلها ولا نهي عنه. وقطع المتولي بجواز استئجارها للأنس بصوتها. وحكى البغوي لا ذلك وجهين. وكذا كل ما يستأنس بصوته كالعندليب وغيره".

(باب الباء الموحدة، ج:1، ص:104، ط:دارالکتب العلمیۃ)

الفقه على المذاهب الأربعة میں ہے:

"ويحل من الطير أكل العصافير بأنواعها والسمان والقنبر والزرزور والقطا والقطا والكروان والبلبل والببغاء  والنعامة والطاووس  والكركي والبط والأوز وغير ذلك من الطيور المعروفة، والجراد حلال أكله، وأكل الفاكهة بدودها والجبن بدونه ومثله المش، ونحو ذلك".

(كتاب الحظر والإباحة، مبحث ما يمنع أكله وما يباح أو ما يحل، وما لا يحل، ج:2، ص:6، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں