بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طوطوں کے کاروبار کی زکاة کس طرح ادا کریں؟


سوال

 میں طوطوں کی فارمنگ کا بزنس کرتا ہوں، یعنی ان کی افزائش کرا کر بچے فروخت کرتا ہوں، جب کہ جو طوطے افزائش کے لیے خرید کیے ہیں ان کو مستقل طور پر اپنے پاس ہی رکھتا ہوں۔ اور اس طرح سالانہ بنیاد پر بچے سیل ہوتے ہیں یعنی ہر سال کی بریڈ جو آتی ہے اس کو فروخت کر دیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مجھے زکاۃ کس پر دینی ہو گی، طوطوں کی مالیت پر یا پھر ان کے وہ بچے جو فروخت کردیے، ان کی مالیت پر؟ اور مزید یہ کہ جو آمدن ہوتی ہے اگر سال ختم ہونے سے پہلے ہی تمام پیسے ختم ہو جائیں تو پھر کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہوں، یا  طوطوں کے کاروبار کے لیے رکھے طوطوں اور ان کے بچوں کی  مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زائد ہو تو اس صورت میں زکاۃ  کا سال مکمل ہونے پر جتنی مالیت کے طوطے اور ان کے بچے موجود ہوں، ان کی اس وقت کی قیمتِ فروخت کے حساب سے کل مالیت نیز اس کے علاوہ اگر نقدی، سونا، چاندی یا دیگر مالِ تجارت موجود ہو تو ان سب اموال کی مالیت کا ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

البتہ جو طوطے محض افزائش نسل کے لیے رکھے ہوں، ان کی فروختگی مقصود ہی نہ ہو تو ایسے تمام طوطوں کی مالیت پر زکاۃ لازم نہ ہوگی، البتہ ایسے طوطوں میں سے جتنے طوطے فروخت کردیے جائیں، ان سے حاصل ہونے والی آمدن سال پورا ہونے پر محفوظ رہی تو اس پر بھی زکاۃ واجب ہوگی، یعنی سال کے دوران جتنے طوطے یا ان کے بچے فروخت ہوگئے، اور ان  سے حاصل شدہ آمدن، زکاۃ کا سال مکمل ہونے سے قبل اگر خرچ ہوگئی، تو خرچ شدہ پر کوئی زکاۃ لازم نہ ہوگی، البتہ اگر مذکورہ آمدن  کل یا اس میں سے کچھ محفوظ ہو تو زکوة  کے حساب میں اس کو بھی شامل کیا جائے گا، اور کل کا ڈھائی فیصد بطور زکوة ادا کرنا واجب ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وَمِنْهَا كَوْنُ النِّصَابِ نَامِيًا) حَقِيقَةً بِالتَّوَالُدِ وَالتَّنَاسُلِ وَالتِّجَارَةِ أَوْ تَقْدِيرًا بِأَنْ يَتَمَكَّنَ مِنْ الِاسْتِنْمَاءِ بِكَوْنِ الْمَالِ فِي يَدِهِ أَوْ فِي يَدِ نَائِبِهِ وَيَنْقَسِمُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إلَى قِسْمَيْنِ خِلْقِيٌّ، وَفِعْلِيٌّ هَكَذَا فِي التَّبْيِينِ فَالْخِلْقِيُّ الذَّهَبُ وَالْفِضَّةُ؛ لِأَنَّهُمَا لَا يَصْلُحَانِ لِلِانْتِفَاعِ بِأَعْيَانِهِمَا فِي دَفْعِ الْحَوَائِجِ الْأَصْلِيَّةِ فَتَجِبُ الزَّكَاةُ فِيهِمَا نَوَى التِّجَارَةَ أَوْ لَمْ يَنْوِ أَصْلًا أَوْ نَوَى النَّفَقَةَ وَالْفِعْلِيُّ مَا سِوَاهُمَا وَيَكُونُ الِاسْتِنْمَاءُ فِيهِ بِنِيَّةِ التِّجَارَةِ أَوْ الْإِسَامَةِ، وَنِيَّةُ التِّجَارَةِ وَالْإِسَامَةِ لَا تُعْتَبَرُ مَا لَمْ تَتَّصِلْ بِفِعْلِ التِّجَارَةِ أَوْ الْإِسَامَةِ ثُمَّ نِيَّةُ التِّجَارَةِ قَدْ تَكُونُ صَرِيحًا وَقَدْ تَكُونُ دَلَالَةً فَالصَّرِيحُ أَنْ يَنْوِيَ عِنْدَ عَقْدِ التِّجَارَةِ أَنْ يَكُونَ الْمَمْلُوكُ لِلتِّجَارَةِ سَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ الْعَقْدُ شِرَاءً أَوْ إجَارَةً وَسَوَاءٌ كَانَ ذَلِكَ الثَّمَنُ مِنْ النُّقُودِ أَوْ الْعُرُوضِ. وَأَمَّا الدَّلَالَةُ فَهِيَ أَنْ يَشْتَرِيَ عَيْنًا مِنْ الْأَعْيَانِ بِعُرُوضِ التِّجَارَةِ أَوْ يُؤَاجِرَ دَارِهِ الَّتِي لِلتِّجَارَةِ بِعَرْضٍ مِنْ الْعُرُوضِ فَتَصِيرُ لِلتِّجَارَةِ، وَإِنْ لَمْ يَنْوِ التِّجَارَةَ صَرِيحًا لَكِنْ ذَكَرَ فِي الْبَدَائِعِ الِاخْتِلَافَ فِي بَدَلِ مَنَافِعِ عَيْنٍ مُعَدَّةٍ لِلتِّجَارَةِ فَفِي كِتَابِ الزَّكَاةِ مِنْ الْأَصْلِ أَنَّهُ لِلتِّجَارَةِ بِلَا نِيَّةٍ، وَفِي الْجَامِعِ مَا يَدُلُّ عَلَى التَّوَقُّفِ عَلَى النِّيَّةِ فَكَانَ فِي الْمَسْأَلَةِ رِوَايَتَانِ".

(كِتَابُ الزَّكَاةِ، الْبَابُ الْأَوَّلُ فِي تَفْسِيرِهَا وَصِفَتِهَا وَشَرَائِطِهَا، ١ / ١٧٤، ط: دار الفكر)

و فیہ ایضا:

"الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ. وَيُقَوَّمُ بِالْمَضْرُوبَةِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ وَتُعْتَبَرُ الْقِيمَةُ عِنْدَ حَوَلَانِ الْحَوْلِ بَعْدَ أَنْ تَكُونَ قِيمَتُهَا فِي ابْتِدَاءِ الْحَوْلِ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ مِنْ الدَّرَاهِمِ الْغَالِبِ عَلَيْهَا الْفِضَّةُ كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ ثُمَّ فِي تَقْوِيمِ عُرُوضِ التِّجَارَةِ التَّخْيِيرُ يَقُومُ بِأَيِّهِمَا شَاءَ مِنْ الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ إلَّا إذَا كَانَتْ لَا تَبْلُغُ بِأَحَدِهِمَا نِصَابًا فَحِينَئِذٍ تَعَيَّنَ التَّقْوِيمُ بِمَا يَبْلُغُ نِصَابًا هَكَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ".

( كتاب الزكوة، الْفَصْلُ الثَّانِي فِي الْعُرُوض، ١ / ١٧٩، ط: دار الفكر)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں