بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طوطوں کے بچوں پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں نے طوطے پالے ہوئے ہیں، ان کے بچے بیچنے کی نیت ہوتی ہے، اصل ہم رکھ لیتے ہیں اور صرف ان سے حاصل ہونے والے بچے بیچ دیتے ہیں تو کیا ان پرندوں پر یا نکلنے والے بچوں پر زکوۃہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ طوطوں کے بچوں ميں تجارت کی جائے اور اس كي ماليت نصاب تک پہنچے ،تو سال گزرنے سےاس پر زکوۃ لازم ہو تي هے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر طوطوں کے بچوں کی قیمت وماليت  نصابِ زکوۃ(52.50تولہ چاندی) تک پہنچے ،یا اپنے دیگر مالِ  زکوۃ کے ساتھ ملانے سے بقدرِ نصاب پہنچےتو اس  پر زکوۃ لازم ہو گی۔البتہ اصل طوطوں پر زکوۃ واجب نہیں ہے؛ کیوں کہ ان کو فروخت کرنے کی نیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ مالی تجارت میں شمار نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والفعلي ما سواهما ويكون الاستنماء فيه بنية التجارة أو الإسامة، ونية التجارة والإسامة لا تعتبر ما لم تتصل بفعل التجارة أو الإسامة."

(کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، الفصل الثانی فی العروض، ج: 1، ص: 174، ط: دار الفكر)

و فیہ ایضاً:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات ... إذا كان له مائتا قفيز حنطة للتجارة تساوي مائتي درهم فتم الحول ثم زاد السعر أو انتقص فإن أدى من عينها أدى خمسة أقفزة، وإن أدى القيمة تعتبر قيمتها يوم الوجوب."

(کتاب الزکاۃ، الباب الثالث، الفصل الثانی فی العروض، ج: 1، ص: 179، ط: دار الفكر)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"أن ‌الزكاة تجب ‌في ‌عروض التجارة إذا حال الحول عندنا."

(كتاب الزكاة، ج: 2، ص: 190، دار المعرفة۔بيروت،لبنان)

المحیط البرہانی میں ہے:

"‌الزكاة واجبة ‌في ‌عروض التجارة بظاهر قوله تعالى: {خذ من أمولهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها وصل عليهم إن صلوتك سكن لهم والله سميع عليم} (التوبة: 103) واسم المال يتناول عروض التجارة."

(‌‌الفصل الثالث في بيان مال الزكاة، ج: 2، ص: 245، ط: دار الكتب العلمية، لبنان۔بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411102352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں