بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’طوطے‘‘ کو جنتی پرندہ کہنا


سوال

کیا طوطا جنتی پرندہ ہے؟

جواب

قرآن پاک میں جنت  کی منجملہ نعمتوں میں سے پرندوں کے گوشت کو گنوایا گیا ہے، لیکن کسی آیت یا حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ پرندہ طوطا ہوگا، اس  لیے کسی دلیل (نص) کے بغیر طوطے کو جنتی پرندہ کہنا درست نہیں ہوگا۔ قرآنِ مجید میں اتنا ہے کہ اہلِ جنت جس پرندے  کے گوشت کی خواہش  کریں گے وہ ان کو مل جائے گا۔

البتہ مسلم  شریف کی ایک  حدیث میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں میں ہوتی ہیں ،ان کی قندیلیں عرش کے  ساتھ لٹکی ہوئی ہیں وہ جنت میں جہاں چاہیں سیر کرتی ہیں،کھاتی پیتی ہیں، اور پھر اپنی قندیلوں کی طرف  واپس لوٹ آتی ہیں۔

اس  پرندہ کی  کیا کیفیت ہوگی ؟ حدیث شریف میں اس پرندہ سے متعلق طوطے کا کہیں  ذکر نہیں ملا، اس کو دنیا کے کسی پرندہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا،انسانی عقل اس کی کیفیت کے ادراک سے قاصر ہے۔

ایک اور  حدیث میں ہے کہ  قیامت کے دن اللہ تعالی تمام مخلوقات کوجمع فرمائیں گے ،اور تمام چرند ،پرند  کو حکم دیں  گے،مٹی ہوجاؤ،اس وقت کافر تمنا کرے گا کہ کاش  میں بھی مٹی ہوتا۔

قرآن پاک میں ہے:

{وَلَحْمِ طَيْرٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ} [الواقعة: 21]

ترجمہ:’’ اور گوشت اڑتے جانوروں کا جس قسم کو جی چاہے ۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

’’ وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُوْنَ ، یعنی پرندوں کا گوشت جیسی ان کی خواہش ہو، حدیث میں ہے کہ اہل جنت جس وقت کسی پرندے کے گوشت کی طرف رغبت کریں گے تو اس کا گوشت جس طرح کھانے کی رغبت دل میں آوے گی کہ کباب ہو یا دوسری طرح کا پکا ہوا، اسی طرح کا فوراً تیار ہو کر اس کے سامنے آجائے گا (مظہری ) ۔‘‘

مسلم شریف میں ہے:

"عن مسروق، قال: سألنا عبد الله عن هذه الآية: {ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله أمواتا بل أحياء عند ربهم يرزقون} [آل عمران: 169] قال: أما إنا قد سألنا عن ذلك، فقال: «أرواحهم في جوف ‌طير خضر، لها قناديل معلقة بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، ثم تأوي إلى تلك القناديل، فاطلع إليهم ربهم اطلاعة»، فقال: " هل تشتهون شيئا؟ قالوا: أي شيء نشتهي ونحن نسرح من الجنة حيث شئنا، ففعل ذلك بهم ثلاث مرات، فلما رأوا أنهم لن يتركوا من أن يسألوا، قالوا: يا رب، نريد أن ترد أرواحنا في أجسادنا حتى نقتل في سبيلك مرة أخرى، فلما رأى أن ليس لهم حاجة تركوا. "

(باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة، وأنهم أحياء عند ربهم يرزقون،ج۳،ص۱۵۰۲،ط:دار احیاء الکتب العربیہ)

وفي شرح النووی علی مسلم:

"قوله صلى الله عليه وسلم في هذا الحديث: في جوف طير خضر، وفي غير مسلم: بطير خضر، وفي حديث آخر: بحواصل طير، وفي الموطأ: إنما نسمة المؤمن طير، و في حديث آخر عن قتادة: في صورة طير أبيض، قال القاضي: قال بعض المتكلمين على هذا الأشبه صحة قول من قال: طير أو صورة طير، و هو أكثر ما جاءت به الرواية لاسيما مع قوله: تأوي إلى قناديل تحت العرش، قال القاضي: و استبعد بعضهم هذا، و لم ينكره آخرون، و ليس فيه ما ينكر، و لا فرق بين الأمرين، بل رواية طير أو جوف طير أصحّ معنىً، و ليس للأقيسة والعقول في هذا حكم، و كله من المجوزات."

(باب بيان أن أرواح الشهداء في الجنة، وأنهم أحياء عند ربهم يرزقون،ج۱۳،ص۳۲،ط:دار احیاء التراث العربی)

تفسیر طبری میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: إن الله يحشر الخلق كلهم، كل دابة وطائر وإنسان، يقول للبهائم والطير كونوا ترابا، فعند ذلك يقول الكافر: يا ليتني كنت ترابًا."

(سورۃ النبأ،الآیۃ۴۰،ج۲۴،ص۵۵،ط:دار ھجر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200916

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں