ٹوپی کی جگہ کیپ کا استعمال کیسا ہے؟ آیا اس سے سنت پوری ہوسکتی ہے؟ یا پھر یہ تشبہ بالغیر میں داخل ہوگا؟
حضور اقدس جناب رسول ﷲ ﷺ اور حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے نماز اور غیر نماز میں ٹوپی اور عمامہ یعنی پگڑی کا پہننا ثابت ہے، اس زمانہ سے آج تک علماء اور صلحاء امت کا اسی پر عمل رہا ہے، آپ ﷺکی ٹوپیاں تین طرح کی تھیں: ایک وہ تھی جو سر کے ساتھ چپکی ہوئی ہوتی تھی، دوسری وہ تھی جو سر سے کسی قدر اونچی ہوتی تھی، تیسری بڑی ٹوپی تھی جس میں کان بھی ڈھک جاتے تھے، لہذا ٹوپی کی کوئی خاص ہیئت اور وضع شرعاً مقرر نہیں ہے، بس ایسی ٹوپی پہننا جس پر علماء اور صلحاءِ امت کا عمل ہو وہ پسندیدہ ہے، اور ایسی ٹوپی جس میں فساق فجار کی مشابہت ہو اس کا استعمال مکروہ ہے۔
مروجہ کیپ پہننے کا رواج مسلمانوں کے علماء اور صلحاء کا نہیں ہے، اور نہ ہی اسے صلحاء کا لباس شمار کیا جاتا ہے بلکہ اس کے برعکس فساق وفجار اس کا استعمال کرتے ہیں، اور اس ٹوپی کو اگر اصل ہیئت پر پہنا جائے تو اس میں نماز ادا کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے، اس لیے اس ٹوپی کو لباس کی سنت نہیں کہا جاسکتا۔
ہاں! اگر کوئی دھوپ سے بچنے کے لیے یا کسی عذر کی وجہ سے کبھی استعمال کرلے تو یہ ناجائز بھی نہیں ہے، لیکن بہرصورت اس سے ٹوپی کی سنت ادا نہیں ہوگی۔
كنز العمال (7/ 121):
"18286- كان يلبس القلانس تحت العمائم وبغير العمائم، ويلبس العمائم بغير القلانس، وكان يلبس القلانس اليمانية وهن البيض المضربة ويلبس ذوات الآذان في الحرب، وكان ربما نزع قلنسوته فجعلها سترة بين يديه وهو يصلي، وكان من خلقه أن يسمي سلاحه ودوابه ومتاعه. "الروياني وابن عساكر عن ابن عباس". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144110200660
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن