بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹوپی کا مذاق اڑانے والے کا حکم


سوال

میری ٹوپی جوکہ اونچی اور گول ہے، کچھ دن قبل میری بیوی ٹوپی ہاتھ میں لے كر کہنے لگی کہ یہ تو کٹورا ہے، اس میں، میں کھاسکتی ہوں، جس پر مجھے غصہ آیا اور میں نے کہا کہ آپ ٹوپی کا مذاق اڑارہی ہیں، اس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ مذاق نہیں اڑا رہی ہے، بلکہ ایسے ہی کہہ دیا، اب سوال یہ ہے کہ کیا گول اور اونچی ٹوپی کو کٹورے سے تشبیہ دینے سے سنت کا استہزا لازم آرہا ہے؟ اور کیا یہ کفر ہے اور نکاح ٹوٹ گیا؟ جب کہ میری بیوی کا مقصد استہزا نہیں تھا۔

جواب

بصورتِ مسئولہ  مذکورہ خاتون نے ٹوپی سے متعلق جو الفاظ (یعنی یہ تو کٹورا ہے، اس میں میں کھاسکتی ہوں) استعمال کیے ہیں، اگر واقعتاً یہ الفاظ استہزاءً نہیں کہے (جیسے کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہو رہاہے کہ بیوی ٹوپی کی سنت کے بجائے اس خاص وضع کی ٹوپی کے بارے میں یہ جملہ کہہ رہی ہے، اور اس کی صراحت کے مطابق مذاق بھی نہیں اڑا رہی)  تو استہزا نہ پائے جانے کی وجہ سے تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح لازم نہیں ہے، تاہم آئندہ اس طرح کے الفاظ بولنے میں احتیاط کریں۔

واضح رہے كه از رُوئے شرع مسلمانوں کا آپس میں ایک دوسرے کي عام ہیئت کا مذاق اڑانا ناجائز اور حرام ہے، جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:

"اے ایمان والو! نہ مردوں کو  مردوں پر ہنسنا چاہیے، کیا عجب ہے کہ (جن پر ہنستے ہیں) وہ ان (ہنسنے والوں) سے (خدا کے نزدیک) بہتر ہوں، اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے، کیا عجب ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو، اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو"۔

(سورۃ الحجرات، رقم الآیۃ:11، ترجمہ:بیان القرآن)

اور وہ اشیاء جو مسنون ہوں، جیسے داڑھی، مسنون لباس، ٹوپی، شرعی حجاب وغیرہ، ان کے استہزا سے آدمی نہ صرف گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوجاتا ہے، بلکہ سنت کا مذاق اڑانے کی وجہ سے  دائرۂ اسلام سے بھی خارج ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں تجدید ایمان کے ساتھ ساتھ  شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی لازم ہوتا ہے؛ لہٰذا اس معاملے میں آئندہ احتیاط کی جائے۔

فيض القدير للمناوي میں ہے:

"قال ابن العربي : القلنسوة من لباس الأنبياء والصالحين والسالكين تصون الرأس وتمكن العمامة وهي من السنة وحكمها أن تكون لاطئة لا مقبية إلا أن يفتقر الرجل إلى أن يحفظ رأسه عما يخرج منهمن الأبخرة فيقيها ويثقب فيها فيكون ذلك تطيبا".

(باب كان وهي الشمائل الشريفة، ج:2، ص:104، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدًا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافًا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به".

(باب المرتد، ج:4، ص:222، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144205200120

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں