بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹوٹے ہوئے برتن کا حکم


سوال

ٹوٹے ہوئے کپ میں چائے پینے اور ٹوٹے ہوئے برتن استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

ایسا برتن (پیالہ، گلاس وغیرہ) جس کا کنارہ ٹوٹا ہوا ہو  اس کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے منہ لگا کر اسے استعمال کرنے کی حدیث میں ممانعت آئی ہے، لہٰذا ٹوٹے ہوئے برتن کو اس طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اہلِ علم نے اس حدیث کے تحت لکھا ہے کہ یہ ممانعت بطورِ شفقت و مہربانی ہے، جسے اصطلاح میں ’’نہی ارشادی‘‘  کہا جاتاہے، یعنی ممانعت میں یہ پہلو ملحوظ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے پانی پینے کی صورت میں منہ زخمی ہوجائے یا کوئی اور نقصان  ہوجائے، لہٰذا اس برتن کی جو جگہ نہ ٹوٹی ہو اس جگہ سے استعمال کرنے کی اجازت ہے، اسی طرح وہ برتن جسے منہ لگائے بغیر اس طور پر استعمال کیا جائے جس میں نقصان کا اندیشہ نہ ہو، یہ بھی بلاکراہت جائز ہے۔ اور اگر ٹوٹے ہوئے برتن کے علاوہ کوئی برتن نہ ہو تو  اسے استعمال کرنے میں بھی کوئی کراہت نہیں ہے۔ اور اگر ٹوٹے ہوئے برتن کی اصلاح و مرمت کے بعد اسے قابلِ استعمال بنایا جاسکتا ہو تو بعد از اصلاح اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی اور برتن موجود ہو لیکن ٹوٹا ہوا برتن ٹوٹی ہوئی جگہ سے (نقصان سے بچتے ہوئے) استعمال کیا جائے تو اسے ناجائز نہیں کہا جائے گا، بلکہ یہ خلافِ اولیٰ ہوگا۔

نیز ٹوٹے ہوئے برتن کے استعمال کی ممانعت کی ایک وجہ اس میں نظافت کا اہتمام نہ ہونا بھی ہوسکتی ہے، یعنی ٹوٹی ہوئی جگہ میں میل کچیل رہنے کی وجہ سے طبعاً کراہت ہوتی ہے۔ بہرحال یہ ممانعت ارشاد کی قبیل سے ہے، حرمت کی قبیل سے نہیں ہے۔

سنن أبي داود (3/ 337):

"عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، وَأَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَابِ».

2878 - حَدَّثَنَا عَبْدَانُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ قَدَحَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْكَسَرَ، فَاتَّخَذَ مَكَانَ الشَّعْبِ سِلْسِلَةً مِنْ فِضَّةٍ. قَالَ عَاصِمٌ: رَأَيْتُ الْقَدَحَ وَشَرِبْتُ فِيهِ".

(صحیح البخاري، کتاب فرض الخمس، باب ماذکر من درع النبي صلی الله علیه وسلم )

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں