بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹورنا منٹ میں میچ کھیلنے کا حکم


سوال

پاکستان کے کئی علاقوں میں اور بالخصوص(kpk) میں عیدین کے موقع پر ٹور نامنٹ میں  میچ کھیلے جاتےہیں، اس میں ہوتایہ ہے کہ ایک کمیٹی ہوتی ہے جو اس ٹورنامنٹ کو چلاتی ہے اور اس میں کئی ٹیمیں ہوتی ہیں، تو کمیٹی ہر ٹیم سے ایک مقررہ فیس لیتی ہے جس سے  گراؤنڈاور ٹورنامنٹ کے دوسرے اخراجات نکالے جاتے ہیں، پھر اس میں جتنی ٹیمیں ہوتی ہیں آپس میں کھیلتی ہیں جو ٹیم ہار جاتی ہے وہ باہر نکل جاتی ہے یہاں تک کہ آخر میں دوٹیمیں رہ جاتی ہیں، ان کے درمیان فائنل میچ ہوتاہے،پھر انہیں فیس کے پیسوں سے دونوں ٹیم کے کھلاڑیوں کو انعامات دیے جاتے ہیں اور  جوپیسے رہ جاتے ہیں وہ کمیٹی والے خود لے لیتے  ہیں اور کافی رقم ہوتی ہے ۔

1:یہ انعامات جو تمام  کھلاڑیوں کے پیسوں سے لیے جاتے ہیں اور آخر میں صرف  دو ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان تقسیم ہوتے ہیں یہ شرعا جائز ہے یا نہیں؟

2:کمیٹی والے جو پیسے لیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟

3: ملکی سطح پر کھلاڑیوں کو جو تنخواہ ملتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟  اس کھیل کا کیا حکم ہے؟

جواب

(1)واضح رہے کہ   ٹورنامنٹ میں یہ شرط رکھنا کہ  ہر ٹیم ایک مخصوص رقم جمع کرائے گی اور پھر اس رقم سے ٹورنامنٹ کے اخراجات نکالنے کے بعد  جو رقم بچے گی اس رقم سے انعامات خرید کرکے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کو انعامات دیے جائیں گے، اس طرح کی شرط "قمار" یعنی جوے پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام ہے،جس سے بچنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔

(2):ٹورنامنٹ کے اختتام تک جو اخراجات ہوں گے جمع شدہ پیسوں سے اسےمنہا کرنے کے بعد کمیٹی والوں کے لیے بچی ہوئی رقم کا لینا شرعا ناجائز ہے، لیکن اگر ساری ٹیموں کے افراد اپنی رضامندی سے کمیٹی والوں کو مالک بناکر دے دیں، تو ایسی صورت میں  بچی ہوئی رقم کا لینا کمیٹی والوں کے لیے شرعا جائز ہو گا۔

(3):شریعت مطہرہ  نے نہ مطلقا کھیل کو جائز بتایا ہے اور نہ مطلقا کھیل سے منع کیا ہے، بلکہ اس کے جواز کے لیے چند شرائط بتائی ہے ، یعنی:  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو،اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو،کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو، اگر ان شرائط کی کھیل میں رعایت نہ کی جائیں تو شرعا جائز نہیں ہے۔

باقی کسی ٹیم میں کھیلنے والے کھلاڑی اگر کسی کمپنی کے ملازم ہیں (مثلاً پی آئی اے وغیرہ) اور کمپنی میں ملازمت کی تنخواہ لیتے ہوں اور کھیل کے زمانہ میں یہ ملازم اپنے ادارے کی طرف سے کھیلنے جاتے ہیں اور کمپنی انہیں ملازم ہونے کی حیثیت سے تنخواہ  دیتی ہے توان کے لیے اجرت وصول کرنا جائز ہے اور اگر یہ کھلاڑی کسی کمپنی کے ملازم نہیں ہیں، بلکہ کھیل ہی کو ذریعہ معاش بنایا ہوا ہے، اور کھیل ہی کی اجرت لیتے ہیں تو ایسی صورت میں ان کی تنخواہیں جائز نہیں ہیں۔

الدر مع الرد میں ہے:

"(ولا بأس بالمسابقة في الرمي والفرس) والبغل والحمار كذا في الملتقى والمجمع وأقره المصنف هنا خلافا لما ذكره في مسائل شتى فتنبه (والإبل و) على (الأقدام) لأنه من أسباب الجهاد فكان مندوبا وعند الثلاثة لا يجوز في الأقدام أي بالجعل أما بدونه فيباح في كل الملاعب كما يأتي (حل الجعل)...(إن شرط المال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لأنه يصير قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بينهما)."

"(قوله من جانب واحد) أو من ثالث بأن يقول أحدهما لصاحبه إن سبقتني أعطيتك كذا، وإن سبقتك لا آخذ منك شيئا أو يقول الأمير لفارسين أو راميين من سبق منكما فله كذا، وإن سبق فلا شيء له اختيار وغرر الأفكار (قوله من الجانبين) بأن يقول إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا زيلعي وكذا إن قال إن سبق إبلك أو سهمك إلخ تتارخانية (قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي."

[كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، (403/6)، ط:سعيد]

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، ... وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي  عنه من الكتاب  أو السنة ... كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسده أغلب على منافعه، وأنه من اشتغل  به ألهاه عن ذكر الله  وحده  وعن الصلاة والمساجد، التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة، فكان حراماً أو مكروهاً. والثاني: ماليس كذلك، فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التهلي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

 [تكملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (435/4) ط:  دارالعلوم کراچی]

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر:

" لايجوز أخذ الأجرة على المعاصي (كالغناء، والنوح، والملاهي)؛ لأن المعصية لايتصور استحقاقها بالعقد فلايجب عليه الأجر، وإن أعطاه الأجر وقبضه لايحل له ويجب عليه رده على صاحبه. وفي المحيط: إذا أخذ المال من غير شرط يباح له؛ لأنه عن طوع من غير عقد. وفي شرح الكافي: لايجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح، والمزامير، والطبل أو شيء من اللهو ولا على قراءة الشعر ولا أجر في ذلك. وفي الولوالجي: رجل استأجر رجلاً ليضرب له الطبل إن كان للهو لايجوز، وإن كان للغزو أو القافلة أو العرس يجوز؛ لأنه مباح فيها."

[كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،(384/2) ط:دار إحياء التراث العربي]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401101749

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں