بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

توکیل کے بعد


سوال

حمنہ بنت بکر نے زید کو اپنے ساتھ  نکاح کرانے کا وکیل بنایا ،زید  دو  دوستوں کے  سامنے گیا اور  واقعہ کا تذکرہ  کیے بغیر مطلقًا ان کو مسئلہ سمجھایا کہ اگر کوئی عورت کسی آدمی کواپنے ساتھ نکاح کرانے کا وکیل بنائے اور وہ دو گواہوں کے سامنے کہے کہ میں نے فلانہ بنت  فلاں کو تمہارے سامنے اپنے نکاح میں قبول کر لیا تو اس طرح نکاح منعقد ہو جاتا  ہے، پھر زید رک کر بغیر کچھ بتائے کہتا  ہے کہ میں نے حمنہ بنت بکر کو  اپنے نکاح میں قبول کر لیا،  پھر پوچھتا  ہے؟ کیا یہ نکاح منعقد ہو گیا؟  وہ دوست کہتے ہیں:  اگر اس نے وکیل بنایا ہو گا تو ہو گیا، یعنی ان کو یہ معلوم نہیں  ہے کہ زید حقیقت میں اس کا نکاح اپنے  ساتھ کرا رہا  ہے،  بل کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ زید ایک مثال سمجھا رہا  ہے۔  تو  کیا یہ نکاح صحیح ہوا  جب کہ گواہوں کو پتا  ہی نہ چلا  اور  گواہ اس کو فرضی مثال سمجھ  رہے تھے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب حمنہ بنت بکر نے زید کو اپنا نکاح کرانے کا وکیل بنا دیا تو  زید کو یہ اختیار حاصل ہو گیا تھا کہ وہ حمنہ کا نکاح اپنے ساتھ کر دے، پھر جب اُس نے حمنہ کا نکاح اپنے ساتھ کر دیا تو یہ نکاح درست ہو گیا،  دونوں میاں بیوی بن گئے۔

باقی زید نے  چوں کہ یہ الفاظ "میں نے حمنہ بنت بکر کو اپنے نکاح میں قبول کر لیا "   صراحت کے ساتھ بولے ہیں، اس  لیے دوستوں کا اس کو محض ایک فرضی مثال سمجھنا  کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

الفتاوى الهندية (1/ 294):

"يصح التوكيل بالنكاح، وإن لم يحضره الشهود، كذا في التتارخانية ناقلا عن خواهر زاده ........ امرأة وكلت رجلا بأن يزوجها من نفسه فقال: زوجت فلانة من نفسي يجوز، و إن لم تقل: قبلت كذا في الخلاصة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201587

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں