بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹول پلازہ سے ٹول ادا کیے بغیر گاڑی نکالنے کا حکم


سوال

ہائی  وے پربنے ٹول پلازہ سے بچاکر گاڑی نکالنا کیسا ہے؟

جواب

 کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزُّلی کا راز اس کے قوانین کی پابندی میں مضمر ہوتا ہے ،مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر معاشرے، ہرقوم اور ہرملک کے کچھ قوانین اور ضوابط ہوتے ہیں، پُرامن اور پُر سکون زندگی گزارنے کے لیے ان کی پابندی از حد ضروری ہوتی ہے ، یہ ایک مثبت پہلو ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ قانون توڑنے اور اُصول وضوابط کا احترام نہ کرنے سے افرا تفری پھیل جاتی ہے، جن کی بنا پر نہ صرف افراد کا سکون تہہ وبالا ہوجاتا ہے، بلکہ پورے معاشرے اور قوم کی زندگی متأثر ہوجاتی ہے، اس لیے مذہبِ اسلام نے مسلمانوں کو قانون کا احترام اور پابندی کرنے کی تاکید کی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں اسلامی معاشرے میں قانون کا کس قدر احترام کیا جاتا تھا، اس کی نہایت عمدہ مثال شراب کی حرمت کے سلسلے میں دیکھنے میں آئی ہے، جوں ہی شراب کی حرمت کا اعلان کرایا گیا، اسی وقت لوگوں نے شراب کے تمام برتن توڑ دیئے اور شراب مدینے کی گلیوں میں بہہ نکلی اور اسلامی معاشرہ شراب کی لعنت سے پاک ہوگیا اور یہی اللہ جل جلالہٗ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت کی اصل روح اور اسلام کا حقیقی مفہوم ہے، چنانچہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسلام کے اُصول واحکام اور اس کی روشنی میں بنائے ہوئے تمام قوانین وضوابط کی پوری پابندی اور کامل احترام کرے ، جس طرح قدرت کا نظام چند ضروری قوانین کا پابند ہے، اسی طرح معاشرے کا قیام ودوام معاشرتی، اخلاقی اور دینی احکام وقوانین پر موقوف ہے ،اور حکامِ وقت کی جائز امور میں فرمانبرداری اور عہد وپیمان کی پاسداری کا بطور خاص لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں گاڑی کو ٹول پلازا سے بچاتے ہوئے نکالنا اور ٹیکس ادا نہ  کرنا درست نہیں ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ." (النساء:59)

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ."  (محمد:33)

"وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ." (البقرة:60)

"صحيح مسلم"میں ہے:

"عن ابن عمر : عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال:  ‌على ‌المرء ‌المسلم ‌السمع ‌والطاعة ‌فيما ‌أحب ‌وكره، إلا أن يؤمر بمعصية، فإن أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة ."

(كتاب الإمارة، ‌‌‌‌باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية، رقم الحديث:1839، ج:6، ص:15، ط:دار طوق النجاة)

"شعب الإيمان للبيهقي" میں ہے:

"عن أنس قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: لا إيمان لمن لا أمانة له ولا دين لمن ‌لا ‌عهد ‌له."

(باب في الإيفاء بالعقود، رقم الحديث:4354، ج:4، ص:78، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

"شرح السنة للبغوي" میں ہے:

"عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال لأبي ذر: اسمع وأطع ولو لعبد حبشي كأن رأسه زبيبة وأخرجه مسلم من طريق أبي ذر، قال: أوصاني خليلي أن أسمع وأطيع وإن كان عبدا مجدع الأطراف. وروي عن يحيى بن حصين، عن جدته أم الحصين، أنها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب في حجة الوداع، وهو يقول: ولو استعمل عليكم عبد يقودكم بكتاب الله اسمعوا له وأطيعوا."

(كتاب الإمارة والقضاء، ‌‌وجوب طاعة الوالي، رقم الحديث:2452، ج:10، ص:42، ط:المکتب الإسلامي، بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"المسلمون عند شروطهم."

(‌‌‌‌كتاب الجهاد، ‌‌باب المستأمن، ج:4، ص:166، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100572

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں