صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ زید عمر سے (گاڑی یا پلاٹ)خریدنا چاہتا ہے اور گاڑی یا پلاٹ کی قیمت 10 لاکھ ہے، اب زید عمر سے کہتا ہے کہ آپ کی گاڑی میں 10 لاکھ کی خریدتا ہوں،دس ہزار ٹوکن دے کر گاڑی قبضے میں لیتا ہے اور بقایا پیسے 15دن بعد دینے کا کہتا ہے اور گاڑی کو آگے فروخت کر لیتا ہے۔ کیا یہ لین دین کرلینا ٹھیک ہے؟
صورتِ مسئولہ میں زید کا عمر سے 10 لاکھ روپے میں گاڑی خرید کر، 10 ہزار ٹوکن دے کر گاڑی اپنے قبضہ میں لینے کے بعد آگے فروخت کرنا شرعا جائز ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومنها في المبيع وهو أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم وما له خطر العدم كبيع نتاج النتاج والحمل كذا في البدائع وأن يكون مملوكا في نفسه وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه فلا ينعقد بيع الكلإ ولو في أرض مملوكة له ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم......ومنها القبض في بيع المشترى المنقول."
(کتاب البیوع ،الباب الاول ج نمبر ۳، ص نمبر ۳-۲، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311100169
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن