بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹائلٹ میں کموڈ کے اوپر کھڑے ہوکر غسل کرنے کا حکم


سوال

 بحالتِ  مجبوری ٹائلٹ کے اوپر کھڑے ہو کر غسل ہو جاتا ہے کیا؟

جواب

بہتر یہ ہے کہ قضائے حاجت کی جگہ اور وضو وغسل کی جگہ مستقل طور پر جدا جدا ہوں، لیکن چوں کہ موجودہ زمانہ میں جگہ کی تنگی ہوسکتی ہے، لہذا قضائے حاجت کی نشست اور غسل خانہ ایک ہی چار دیواری میں بنانے کی گنجائش ہے، تاہم یک جا بنانے کی صورت میں بھی  کوشش کی جائے کہ دونوں کے درمیان کوئی فاصل/ آڑ  ہو، اگر کسی بھی ذریعہ سے فاصل ممکن نہ ہو تو  کم از کم اتنا اہتمام کیا جائے کہ وضو اور غسل کے پانی کی  نکاسی کی لائن  اور بیت الخلا کے پانی کی نکاسی کی لائن جدا جدا ہو، اور دونوں کی جگہ کے درمیان کچھ  فاصلہ ہو؛  ناپاک جگہ پر وضو اور غسل کرنا مکروہ ہے؛  اس لیے کہ وضو اور غسل کے پانی کو ایک گونہ حرمت حاصل ہے، اسے براہِ راست بیت الخلا کے نجس پانی میں گرانا مناسب نہیں ہے؛   لہٰذا  ٹائلٹ میں عین کموڈ کے اوپر کھڑے ہوکر غسل کرنے سے اگرچہ غسل ہوجائے گا، لیکن ایسی جگہ غسل کرنا مکروہ ہے، نیز ایسی جگہ غسل کرنے کی صورت میں ناپاک چھینٹے جسم پر لگنے کا بھی اندیشہ رہے گا، جو وساوس میں مبتلا ہونے کا سبب ہے؛ لہٰذا   ٹائلٹ میں کموڈ کے اوپر کھڑے ہوکر غسل کرنے کی عادت نہیں بنانی چاہیے، البتہ مجبوری کی صورت میں کوئی متبادل جگہ نہ ہونے کی صورت میں بے پردگی سے بچنے کے  لیے ایسی جگہ غسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 133):

"ومن منهياته: التوضؤ بفضل ماء المرأة وفي موضع نجس؛ لأن لماء الوضوء حرمة".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 156):

’’ (وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 344):

"(وأن يبول قائماً أو مضطجعاً أو مجرداً من ثوبه بلا عذر أو) يبول (في موضع يتوضأ) هو (أو يغتسل فيه)؛ لحديث: «لا يبولن أحدكم في مستحمه فإن عامة الوسواس منه».

و في الرد: "(قوله: لحديث إلخ) لفظه كما في البرهان عن أبي داود: «لايبولن أحدكم في مستحمه ثم يغتسل أو يتوضأ فيه، فإن عامة الوسواس منه». والمعنى موضعه الذي يغتسل فيه بالحميم، وهو في الأصل الماء الحار، ثم قيل للاغتسال بأي مكان استحمام؛ وإنما نهي عن ذلك إذا لم يكن له مسلك يذهب فيه البول أو كان المكان صلباً فيوهم المغتسل أنه أصابه منه شيء فيحصل به الوسواس، كما في نهاية ابن الأثير. اهـ. مدني".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 54):

"قوله: " ويكره في محل التوضؤ" لقوله صلى الله عليه وسلم: "لايبولن أحدكم في مستحمه ثم يغتسل فيه أو يتوضأ فإن عامة الوسواس منه" قال ابن ملك: لأن ذلك الموضع يصير نجساً فيقع في قلبه وسوسة بأنه هل أصابه منه رشاش أم لا اهـ حتى لو كان بحيث لايعود منه رشاش أو كان فيه منفذ بحيث لايثبت فيه شيء من البول لم يكره البول فيه؛ إذ لايجره إلى الوسوسة حينئذٍ؛ لأمنه من عود الرشاش إليه في الأول؛ ولطهر أرضه في الثاني بأدنى ماء طهور يمر عليها، كذا في شرح المشكاة". 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں