بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

توبہ وبیعت کے بارے میں مشورہ


سوال

 میں نے کئی سال قبل آپ سے اپنی ماضی کی معصیت سے چھٹکارا پانے کے لئے رہنمائی طلب کی تھی، آپ نے جہاں توبہ کرنے کے طریقۂ کار کی نشاندہی کی تھی  وہاں نیک لوگوں کی صحبت تلاش کرنے اور کسی متبعِ شریعت شیخ کے ساتھ اصلاحی تعلق قائم کرنے اور بیعت کا مشورہ دیا،  میں بندہ بشر ہوں ،حتی الامکان گناہ سے بچنے کی کوشش تو کرتا ہوں، لیکن آپ کی دیگر دو نصیحتوں پر آج تک بوجوہ عمل نہیں کرپایا، خاص طور پر متبع شریعت شیخ سے متعلق نصیحت پر، ایک تو اِس لئے کہ میں کچھ عرصے سے امریکہ مقیم ہوں، سرکاری طور پر تعلیم کے لئے آیا ہوں، دوسرا اِس لیے کہ اُس وقت سے بیعت سے متعلق طبیعت گومگوں کیفیت کا شکار ہے،  حالانکہ میں مختلف علماء و شیوخ کے بیانات گاہے بگاہے سنتا رہتا ہوں، اِس کیفیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ کیسے یقین کیا جائے کہ فی زمانہ کوئی شیخ متبع سنت ہے؟ ایک نقشبندی بزرگ اور ان کے خلفاء کی جانب کچھ دل راغب سا ہوا تھا،  لیکن پھر ان کے بارے میں عجیب سی باتیں سُننے کو مِلیں اور ایک بڑے ادارے کا جاری کیا ہوا ایک فتویٰ جو مُبینہ طور پر ان ہی کے بارے میں ہے اس کو پڑھا تو دل بہت خراب ہوا کہ ہم جیسے دنیادار گناہ گار اور اتنے  معروف شیخ میں کیا فرق رہ گیا؟  اپنی اس کشکمش سے متعلق اب آپ سے دو سوال کرنا چاہتا ہوں:

 اول: یہ خیال اکثر ستاتا ہے کہ چوں کہ میں نے ایک بڑی درسگاہ کے دارلافتاء سے توبہ کے متعلق مشورہ مانگا تھا، ان کی تمام نصیحتوں پر ابھی تک عمل نہ کرنے سے کیا میری توبہ اللہ کے ہاں نامکمل اور غیر مقبول تصور ہو گی؟

دوم: کچھ شیوخ کو آج کل سنتا ہوں جن میں شیخ اظہر اقبال صاحب، شیخ ہمایوں حنیف صاحب،شیخ شاہ حکیم محمد مظہر صاحب اور شیخ فیروز میمن صاحب شامل ہیں۔ کیا یہ تمام مشائخ یا ان میں سے کوئی ایک آپ کی نظر میں متبعِ شرع و سنت ہیں؟ کیا ان میں سے کسی سے اصلاحی تعلق یا بیعت جائز ہوگی؟ یا کسی اور بزرگ کی طرف آپ نشاندہی کرسکتے ہیں،  تو کچھ دل کو تسلی ہو کہ میں صحیح رہبر کی تقلید کررہا ہوں۔ 

جواب

1۔واضح رہے کہ اگر کوئی بندہ اپنے گناہوں  پر نادم ہوکرگناہوں کو ترک کردےاور سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کرکے آئندہ کے لیے گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرلے، سابقہ گناہ پر ندامت ہو اور اس گناہ کو فورًاچھوڑدے تو اللہ تعالٰی اپنے فضل وکرم سے اس کی توبہ قبول فرمالیتے ہیں، اور اس کے گناہ معاف کردیتے ہیں، لہٰذا اگر آپ نے مذکورہ طریقہ پر توبہ کرلی ہے تو اللہ تعالٰی نےاپنے فضل وکرم سے آپ  کی توبہ قبول فرماکر گناہ معاف فرمایاہوگا، گناہوں سے بچتے ہوئےاللہ تعالٰی سے اچھی امید رکھنی چاہیے ، اللہ کی ذات پر کامل یقین ہونا چاہیے، شیطانی وساوس میں نہیں پڑنا چاہیے کہ پتہ نہیں میری توبہ قبول ہوگی یا نہیں، باقی توبہ پر استقامت کے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کریں اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں۔

2۔ہر انسان پر اپنے نفس کی اصلاح واجب ہے، اس کے لیے جس طرح دیگر ذرائع ہیں اسی طرح کسی متبعِ سنت بزرگ سے بیعت ہوجانا بھی ایک مؤثر اور کامیاب ذریعہ ہے اور سنت بھی ہے، ہر ایک کے لیے یہ ضروری تو نہیں ہے، لیکن انسان اگر خود رائی کو  وطیرہ بنالے تو  ذاتی و اجتماعی، دینی و دنیاوی معاملات میں اس سے غلطی کا احتمال زیادہ رہتاہے، جب کہ کسی متبعِ شریعت بزرگ کو اپنا بڑا بناکر اس کی راہ نمائی اور مشورے سے امور انجام دینے میں غلطی اور نقصان کا امکان بہت کم ہوجاتاہے، چوں کہ  بیعت کا مقصد رشد و ہدایت اور اصلاح نفس ہے، اس لیے  جس شیخ بیعت کرنی ہو اُن میں مندرجہ ذیل صفات کا ہونا ضروری ہے:

1۔کتاب و سنت کا ضروری علم رکھتا ہو خواہ  پڑھ کر یا علماء سے سن کر۔

2۔عدالت و تقوی میں پختہ ہو، کبائر سے اجتناب کرتا ہو، صغائر پر مصر نہ ہو۔

3۔دنیا سے بے رغبت ہو (حبِ مال و حبِ جاہ سے خالی ہو)، آخرت میں رغبت رکھتاہو، طاعاتِ مؤکدہ و اذکار منقولہ کا پابند ہو۔

4۔نیکیوں کا حکم کرتا ہو، برائیوں سے روکتا ہو۔

 5۔سلوک، تزکیۂ باطن کو معتبر مشائخ سے حاصل کیا ہو، اور ان کی صحبت میں طویل عرصہ رہا ہو۔

لہذا اگر کسی شیخ میں مندرجہ بالا شرائط موجود ہوں تو ان سے بیعت کی جاسکتی ہے۔ 

 آپ استخارہ کرلیں اور اللہ تعالٰی سے دعا کرلیں کہ اے اللہ! آپ مجھے اس شخصیت کے ساتھ بیعت کرنے کی توفیق عطاء فرمائیں، جس سے مجھے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو، اور جس سے بیعت کرنے سے میری اصلاح ہوسکے، اس کے بعد جس بزرگ میں بھی یہ صفات پائی جائے اور آپ کا دل اس سے بیعت کرنے پرمطمئن ہو تو اس سے بیعت کرلیں اور پھر اُن کی تمام ہدایات پر مکمل طور پر عمل کریں، ان شاء اللہ اس کا بہت فائدہ ہوگا۔

سننِ ابنِ ماجہ میں ہے:

"عن أبي عبيدة بن عبد الله، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌التائب ‌من ‌الذنب، كمن لا ذنب له»."

(كتاب الزهد، باب ذكر التوبة، 1419/2، ط: دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ گناہ سے (صدقِ دل سے) توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح (پاک و صاف ہوجاتا) ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔"

جامع العلوم والحکم میں ہے:

"قال: {ومن يعمل سوءا أو يظلم نفسه ثم يستغفر الله يجد الله غفورا رحيما} [النساء: 110] ، وقال ابن عباس في قوله تعالى: {ما جعل عليكم في الدين من حرج} [الحج: 78] ، قال: هو سعة الإسلام، وما جعل الله لأمة محمد من التوبة والكفارة. وظاهر هذه النصوص يدل على أن من تاب إلى الله توبة نصوحا، واجتمعت ‌شروط ‌التوبة في حقه، فإنه يقطع بقبول الله توبته، كما يقطع بقبول إسلام الكافر إذا أسلم إسلاما صحيحا، وهذا قول الجمهور، وكلام ابن عبد البر يدل على أنه إجماع."

(الحديث الثامن عشراتق الله حيثما كنت....، 418/1، ط: مؤسسة الرسالة)

تلازم الشریعۃ والطریقۃ  میں ہے:

"فشرط من ياخذ البيعة أمور، أحدها: علم الكتاب والسنة... والشرط الثاني: العدالة والتقوى، فيجب أن يكون مجتنبًا عن الكبائر غير مصر على الصغائر... والشرط الثالث: أن يكون زاهدًا في الدنيا راغبًا في الاخرة، مواظبًا على الطاعات المؤكدة والأذكار المأثورة... والشرط الرابع: أن يكون آمرًا بالمعروف ناهيًا عن المنكر... والشرط الخامس: أن يكون صحب المشائخ وتأدب بهم دهرًا طويلًا وأخذ منهم النور الباطن والسكينة."

( تلازم الشريعة والطريقة للشیخ محمد زکریا الکاندهلوي رحمه الله، ص: 130، ط: مکتبة الحرمین)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں