بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

توبہ سے پہلے نفل نماز پڑھنے کا حکم


سوال

کیا نفل نماز پڑھے بغیر زبان سے توبہ کر سکتے ہیں؟

جواب

اپنے گناہوں پر پشیمان ہونا اور صدقِ دل سے توبہ کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ایک مستحسن اور اللہ تعالیٰ کا محبوب عمل ہے، جیسے کہ قرآن مجید میں ہے:

"يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۙ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ"

ترجمہ:اے ایمان والو تم اللہ کے آگے سچی توبہ کرو(توبہ کا ثمرہ فرماتے ہیں) امید (یعنی وعدہ) ہے کہ تمہارا رب (اس توبہ کی بدولت) تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تم کو (جنت کے) ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی (اور یہ اس روز ہوگا) جس دن کہ اللہ تعالیٰ نبی (علیہ السلام) کو اور جو مسلمان (دین کی رو سے) ان کے ساتھ ہیں ان کو رسوا نہ کرے گا۔ 

(سورۃ التحریم، رقم الآیۃ:08، ترجمہ:بیان القرآن)

اور سچی توبہ کے لیے تین شرطیں ہیں:

1:گناہ سے مکمل اجتناب کریں، 2: سابقہ گناہوں پر پشیمان ہوجائے، 3: دوبارہ اس طرح گناہ نہ کرنے کا پکا عزم کریں۔

باقی توبہ کرنے سے پہلے فی نفسہ نفل نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے، تاہم اگر کوئی نفل نماز  توبہ کرنے کی نیت سے پڑھتا ہےتو اس صورت میں توبہ کرنے کی نیت سے نفل نماز جس کو صلوۃ التوبۃ کہتے ہیں پڑھنا بہتر ہے، جس کا طریقہ کار مندرجہ ذیل ہے:

سب سے پہلے وضو کیا جائے اس کے بعد دو رکعت نمازِ توبہ کی نیت سے نفل نماز پڑھے،اور سلام پھیرنے کے بعد اللہ سے روکر خوب معافی مانگے،اور اس دوران سابقہ  گناہ پر پشیمان وندامت کی حالت میں اپنے نفس کو ملامت کرے،اور  پختہ عزم کرے کہ اب آئندہ گناہ نہیں کروں گا،اور اگر کسی کا حق واجب ہو تو اسے ادا کرےاور اگر  کسی کی غیبت کی ہو اور اس کو معلوم ہو  تو ان سے حکمت ومصلحت سے معاف کرائے، اور اگر اس کو معلوم نہ ہو تو اس کے لئے استغفار کرے۔مذکورہ طریقہ سے توبہ کرنے کی حدیث شریف میں ترغیب بھی آئی ہے، جیسے مندرجہ ذیل روایت میں مروی ہے:

"عن أسماء بن الحكم الفزاري، قال: سمعت عليا رضي الله عنه يقول: كنت رجلا إذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا نفعني الله منه بما شاء أن ينفعني، وإذا حدثني أحد من أصحابه استحلفته، فإذا حلف لي صدقته، قال: و حدثني أبو بكر وصدق أبو بكر رضي الله عنه، أنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من عبد يذنب ذنبا، فيحسن الطهور، ثم يقوم فيصلي ركعتين، ثم يستغفر الله، إلا غفر الله له، ثم قرأ هذه الآية: {والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله} [آل عمران: 135] إلى آخر الآية".

(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوۃ، باب الاستغفار، رقم الحدیث:1521، ج:2، ص:86، ط:المکتبۃ العصریۃ)

ترجمہ: حضرت اسماء بن حکم (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی حدیث سنتا تو اللہ تعالیٰ مجھ کو اس پر عمل کی توفیق بخشتا جس قدر چاہتا۔ اور جب کوئی اور مجھ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث بیان کرتا تو میں اس کو قسم دیتا جب وہ قسم کھا لیتا تو مجھے یقین آجاتا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے مجھ سے حدیث بیان کی اور ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے سچ کہا ان کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کوئی بندہ ایسا نہیں جو کوئی گناہ کر بیٹھے اور پھر اچھی طرح وضو کر کے کھڑے ہو کردو رکعت نماز پڑھے اور پھر اللہ سے معافی چاہے اور اللہ اس کو بخش نہ دے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے یہ حدیث بیان کرنے کے بعد قرآن کی یہ آیت پڑھی ( وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ ) 3 ۔ آل عمران : 135) آخر آیت تک۔ 

روح المعاني فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی میں ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ...

أخرجه ابن مردويه عن ابن عباس قال: «قال معاذ بن جبل: يا رسول الله ما التوبة النصوح؟ قال: أن يندم العبد على الذنب الذي أصاب فيعتذر إلى الله تعالى ثم لا يعود إليه كما لا يعود اللبن إلى الضرع»...

وقال الإمام النووي: التوبة ما استجمعت ثلاثة أمور: أن يقلع عن المعصية وأن يندم على فعلها وأن يعزم عزما جازما على أن لا يعود إلى مثلها أبدا فإن كانت تتعلق بآدمي لزم رد الظلامة إلى صاحبها أو وارثه أو تحصيل البراءة منه، و ركنها الأعظم الندم.

و في شرح المقاصد قالوا: إن كانت المعصية في خالص حق الله تعالى فقد يكفي الندم كما في ارتكاب الفرار من الزحف وترك الأمر بالمعروف، وقد تفتقر إلى أمر زائد كتسليم النفس للحد في الشرب وتسليم ما وجب في ترك الزكاة، ومثله في ترك الصلاة وإن تعلقت بحقوق العباد لزم مع الندم، والعزم إيصال حق العبد أو بدله إليه إن كان الذنب ظلما كما في الغصب والقتل العمد، ولزم إرشاده إن كان الذنب إضلالا له، والاعتذار إليه إن كان إيذاء كما في الغيبة إذا بلغته و لايلزم تفصيل ما اغتابه به إلا إذا بلغه على وجه أفحش." 

(سورة التحريم، رقم الآية:08، ج:14، ص:352، ط:داراحىاء التراث العربى)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144307100460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں