بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

توبہ سے متعلق چند سوالات


سوال

توبہ سے متعلق میرے چند  سوالات  ہیں مہربانی کرکے سب کے  جوابات  عنایت فرمادیں  ۔

1۔ کیا توبہ ٹوٹنے کے بعد پچھلے تمام گناہ پھر سے واپس آجاتے ہیں یا نہیں؟

2۔ توبہ کیسے ٹوٹ جاتی ہے؟ توبہ کے بعد وہی گناہ دوبارہ ہونے سے توبہ ٹوٹ  جاتی ہے یا کوئی بھی گناہ ہونے سے ٹوٹ جاتی ہے؟

ایک آدمی ہے جو کی زانی تھا اب اُس سے سچی توبہ کر لی ہے لیکن اس سے توبہ کے بعد دو گناہ سرزد ہوئے ایک  شہوت میں مشت زنی اور دوسرا والدین سے کُچھ باتوں میں تلخی ہوئی ۔کیا زنا سے اِس  کی  ہوئی  توبہ ٹوٹ گئی یا نہیں؟

3۔  اِس دُنیا میں ایسا کون سا گناہ ہے جو توبہ سے بھی معاف نہیں ہو سکتا ۔جیسا کی حدیث میں آتا ہے کی کھلم کھلا گناہ کرنے والے اور خُفیہ گناہ کرکے پھر لوگوں  کو اپنا گناہ بتا دینے والے کو ناقابلِ معافی کہا گیا ہے ۔

4۔ کیا اِس سے بھی توبہ کرنے کے بعد انسان کا فسق و فجور ختم ہو جائے گا اور گناہ معاف ہو جائیں گے اور گناہ سے بالکلِ پاک صاف ہو جائےگا ۔

جواب

واضح  رہے  کہ گناہ کا تعلق اگر حقوق اللہ سے ہو تو اس سے توبہ  کی درج ذیل تین شرائط  فقہاء  و محدثین  نے بیان کی ہیں:

1۔ گناہ کو فوری طور پر چھوڑ دینا۔

2۔  کردہ گناہ پر ندامت و شرمندگی  کا اظہار۔

3۔ آئندہ اس گناہ کو نہ کرنے کا عزم کرنا۔

اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد  سے ہو تو اس سے توبہ  کے لیے درج بالا تینوں شرائط کے ساتھ چوتھی شرط یہ ہے کہ جس بندہ کی حق تلفی کو ہو اس سے اپنا معاملہ صاف کرلے،  پس درج بالا شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے جو توبہ کی جاتی ہے، وہ توبہ مقبول ہوتی ہے ۔

1۔   جس  کے بعد اگر پھر سے و ہی گناہ کا یا کوئی  اور گناہ اس سے صادر ہوجائے، تو اس سے پچھلے  گناہ عود نہیں کرتے۔

2۔ توبہ کے بعد اگر  پھر گناہ کا صدور ہوجائے تو اس گناہ پر دوبارہ توبہ کرنا واجب ہوتا ہے،  توبہ ٹوٹنے  کا مطلب یہ نہیں کہ پچھلے گناہ بھی لوٹ آئیں،  بلکہ اس کا مطلب  یہ ہوتا ہے کہ پچھلی توبہ نئے  صادر ہونے والے گناہ کے لیے کافی نہیں، اس پر دوبارہ  توبہ واجب ہے، لہذا مسئولہ  صورت میں مشت زنی  یا والدین سے بدسلوکی کرنے پر صدق دل سے توبہ واجب ہوگی، تاہم اس کی وجہ سے زنا سے کی گئی توبہ کالعدم نہ ہوگی۔

صحیح البخاری میں ہے:

" ٧٥٠٧- حدثنا أحمد بن إسحاق، حدثنا عمرو بن عاصم، حدثنا همام، حدثنا إسحاق بن عبد الله، سمعت عبد الرحمن بن أبي عمرة، قال: سمعت أبا هريرة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن عبدا أصاب ذنبا - وربما قال أذنب ذنبا - فقال: رب أذنبت - وربما قال: أصبت - فاغفر لي، فقال ربه: أعلم عبدي أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به؟ غفرت لعبدي، ثم مكث ما شاء الله ثم أصاب ذنبا، أو أذنب ذنبا، فقال: رب أذنبت - أو أصبت - آخر، فاغفره؟ فقال: أعلم عبدي أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به؟ غفرت لعبدي، ثم مكث ما شاء الله، ثم أذنب ذنبا، وربما قال: أصاب ذنبا، قال: قال: رب أصبت - أو قال أذنبت - آخر، فاغفره لي، فقال: أعلم عبدي أن له ربا يغفر الذنب ويأخذ به؟ غفرت لعبدي ثلاثا، فليعمل ما شاء. "

( كتاب التوحيد، باب قول الله تعالى: {يريدون أن يبدلوا كلام الله} [الفتح:١٥ ]، ٩ / ١٤٥، ط: دار طوق النجاة)

ترجمہ:’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے  ہیں کہ  میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ"  ایک بندے نے بہت گناہ کیے  اور کہا: اے میرے رب! میں تیرا ہی گنہگار بندہ ہوں تو مجھے بخش دے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا کوئی رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور گناہ کی وجہ سے سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا پھر بندہ رکا رہا جتنا اللہ نے چاہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور عرض کیا: اے میرے رب! میں نے دوبارہ گناہ کر لیا، اسے بھی بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ہے اور اس کے بدلے میں سزا بھی دیتا ہے، میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ پھر جب تک اللہ نے چاہا بندہ گناہ سے رکا رہا اور پھر اس نے گناہ کیا اور اللہ کے حضور میں عرض کیا: اے میرے رب! میں نے گناہ پھر کر لیا ہے تو مجھے بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ضرور ہے جو گناہ معاف کرتا ورنہ اس کی وجہ سی سزا بھی دیتا ہے میں نے اپنے بندے کو بخش دیا۔ تین مرتبہ، پس اب جو چاہے عمل کرے۔‘‘

ریاض الصالحین میں ہے:

" قال العلماء: التوبة واجبة من كل ذنب، فإن كانت المعصية بين العبد وبين الله تعالى لا تتعلق بحق آدمي، فلها ثلاثة شروط:

أحدها: أن يقلع عن المعصية.

والثاني: أن يندم على فعلها.

والثالث: أن يعزم أن لا يعود إليها أبدا. فإن فقد أحد الثلاثة لم تصح توبته.

وإن كانت المعصية تتعلق بآدمي فشروطها أربعة: هذه الثلاثة، وأن يبرأ من حق صاحبها، فإن كانت مالا أو نحوه رده إليه، وإن كانت حد قذف ونحوه مكنه منه أو طلب عفوه، وإن كانت غيبة استحله منها. ويجب أن يتوب من جميع الذنوب، فإن تاب من بعضها صحت توبته عند أهل الحق من ذلك الذنب، وبقي عليه الباقي."

( باب التوبة، ص: ٣٣ - ٣٤، ط: مؤسسة الرسالة )

3۔   دنیا میں کوئی ایسا گناہ نہیں ہے، جس سے توبہ کرنے کے باوجود  اللہ نہ بخشتا ہو ،یہاں تک کہ اعلانیہ گناہ کرنے والا شخص بھی اگر  صدق دل سے  شرائط بالا کی رعایت  کرتے ہوئے  اپنے  گناہ سے توبہ کرلے، تو  اللہ رب العزت اسے بخش دیتا ہے، اور توبہ کے بعد اس گناہ پر بندے کا مواخذہ  نہیں کیا جائے گا، اور  اسے گناہ سے پاک کردیا جائےگا،  اور اللہ رب العزت  اس کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل فرما دے گا،  لیکن اگر اپنے کیے پر ندامت نہ ہو، یا ندامت تو ہو مگر آئندہ کے لیے اس گناہ کو ترک نہ کرے، تو محض زبان سے توبہ توبہ کرنا درحقیقت  توبہ ہی نہیں، اور نہ ہی اس طرح زبانی توبہ  کرنے سے معافی  نصیب ہوگی۔

سورہ فرقان میں باری تعالی   ارشاد ہے:

" وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (٦٨) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا  (٦٩)  إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (٧٠)  وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا(٧١) "

ترجمہ: ’’اور جو اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے، اور جس جان کو اللہ نے حرمت بخشی ہے، اسے ناحق قتل نہیں کرتے، اور نہ وہ زنا کرتے ہیں، اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا، اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

قیامت کے دن اس کا عذاب بڑھا بڑھا کر دگنا کردیا جائے گا، اور وہ ذلیل ہو کر اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔

ہاں مگر جو کوئی توبہ کرلے، ایمان لے آئے، اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

اور جو کوئی توبہ کرتا اور نیک عمل کرتا ہے، تو وہ درحقیقت اللہ کی طرف ٹھیک ٹھیک لوٹ آتا ہے۔‘‘

ارشاد باری تعالی ہے:

"قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ "( الزمر:٥٣)

ترجمہ: ’’ کہہ دو کہ :  اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔‘‘

صحیح مسلم میں ہے:

" عن ابن جريج، قال: أخبرني يعلى بن مسلم؛ أنه سمع سعيد بن جبير يحدث عن ابن عباس؛ أن ناسا من أهل الشرك قتلوا فأكثروا. وزنوا فأكثروا ثم أتوا محمدا صلى الله عليه وسلم. فقالوا:إن الذي تقول وتدعو لحسن. ولو تخبرنا أن لما عملنا كفارة! فنزل: {والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما} ونزل: {يا عبادي الذين أسرفوا على أنفسهم لا تقنطوا من رحمة الله}"

( كتاب الإيمان، باب كون الإسلام يهدم ما قبله وكذا الهجرة والحج، ١ / ١١٣، رقم الحديث: ١٢٢، ط: دار إحياء التراث العربي )

ترجمہ: ’’ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، مشرکوں میں چند لوگوں نے (شرک کی حالت میں) بہت خون کیے تھے اور بہت زنا کیا تھا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: آپ جو فرماتے ہیں اور جس راہ کی طرف بلاتے ہیں وہ خوب ہے اور جو آپ ہم کو بتلا دیں ہمارے گناہوں کا کفارہ تو ہم اسلام لائیں تب یہ آیت اتری« وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا » اور یہ آیت نازل ہوئی:« يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ » یعنی : اے میرے بندوں! جنہوں نے گناہ کئے ہیں،  مت ناامید ہو اللہ کی رحمت سے۔‘‘

(یعنی اللہ  رب العزت نے ان لوگوں کو بتلا دیا کہ تم ایمان لے آؤ ،  تو  شرک کے زمانے کئے   گئے تمہارے گناہ معاف ہو جائیں گے)

شعب الإيمان للبيهقي میں ہے:

٦٧٨٠- "أخبرنا أبو سعيد بن أبي عمرو، أخبرنا أبو عبد الله الصفار، حدثنا أبو بكر بن أبي الدنيا، حدثنا أحمد بن بديل اليامي، حدثنا سلم بن سالم، حدثنا سعيد الحمصي، عن عاصم الجذامي، عن عطاء، عن ابن عباس قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "التائب من الذنب كمن لا ذنب له، والمستغفر من الذنب وهو مقيم عليه كالمستهزئ بربه، ومن آذى مسلما كان عليه من الإثم كذا وكذا."

( السابع والأربعون من شعب الإيمان "وهو باب في معالجة كل ذنب بالتوبة، ٩ / ٣٦٣، ط: مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

ترجمہ:’’ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ: گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے کہ جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو، اور گناہ پر قائم رہتے ہوئے استغفار کرنے والا اللہ سے استہزاء کرنے والے شخص کی مانند ہے۔ اور جو کسی مسلمان  کو تکلیف دے،  اس پر ایسا ایسا گناہ ہے۔‘‘

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

" (كمن لا ذنب له) أي: في عدم المؤاخذة، بل قد يزيد عليه بأن ذنوب التائب تبدل حسنات، ويؤيد هذا ما جاء عن رابعة - رضي الله عنها - أنها كانت تفخر على أهل عصرها كالسفيانين والفضيل، وتقول: إن ذنوبي بلغت من الكثرة ما لم تبلغه طاعاتكم، فتوبتي منها بدلت حسنات فصرت أكثر حسنات منكم. اهـ. وفيه: أن هذه حسنات تقديرية، فأين هي من حسنات تحقيقية يترتب عليها الزيادة المضاعفة، وعندي أن حسنة واحدة من السفيانين مما يتعلق بنقل السنة التي يعمل بها إلى يوم القيامة تزيد على جميع حسنات رابعة، وإنما كانا يتواضعان لها في الحضور عندها، وطلب الدعاء منها اقتداء به - عليه الصلاة والسلام - بل ربما كانا ينفعانها فيما تكون جاهلة في أمر دينها، والله تعالى أعلم.

قال الطيبي - رحمه الله -: من قبيل إلحاق الناقص بالكامل مبالغة، كما تقول: زيد كالأسد، إذ لا شك أن المشرك التائب ليس كالنبي المعصوم، وتعقبه ابن حجر، بأن المراد. ممن لا ذنب له من هو عرضة له لكنه حفظ منه، فخرج الأنبياء والملائكة، فليسوا مقصودين بالتشبيه. قلت: فالخلاف لفظي، واختلفوا فيمن عمل ذنوبا وتاب منها، ومن لم يعملها أصلا أيهما أفضل؟ فقيل: الأول لأن توبته بعد أن ذاق لذات المعصية تدل على أنه أعلى صدقا وأقوى أيمانا، لأنه باشر المانع، ثم تركه بخلاف الثاني، وقيل: الثاني لأنه لم يتدنس بالمعاصي بخلاف الأول، وشتان ما بينهما، ولذا قال بعض العارفين: إما عصمة من الأول، وإما توبة في الآخر، والظاهر أن الأشبه بالأنبياء والملائكة المعصومين والأولياء والأصفياء المحفوظين هو الأصل، لأنه العبد الأكمل، فإنه ولو غفر له لا يخلو عن الحياء والخجلة، وتوقف ابن حجر في المسألة والله أعلم."

( كتاب أسماء الله تعالى، باب الإستغفار و التوبة، ٤ / ١٦٣٦، ط: دار الفكر )

4۔ جب انسان صدق دل سے توبہ کرلیتا ہے تو وہ اللہ کی نگاہ میں  فاسق نہیں رہتا ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں