بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

توبہ کرنے کے بعد دوبارہ گناہ سرزد ہونے کا حکم


سوال

اگر کسی گناہ سے اخلاص سے توبہ کی جائے ، مطلب اس گناہ کا پھر دل میں خیال بھی نہ ہو اور پھر بھی وہی گناہ ہوجائے ، توپھر کس طرح سے توبہ کی جا ئے کہ انسان اس گناہ سے بچ جائے ؟ مطلب وہ ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے۔

جواب

واضح رہے کہ انسان خطا کاپتلاہے  ،لیکن بہترین شخص وہ ہے جو گناہ کرکے اس پرقائم نہ رہے، بلکہ فوراً تو بہ کرکے اللہ تعالی سے معافی مانگ لے، حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (اللہ تعالی کے نزدیک) بہترین خطا کار وہ ہیں جوکثرت سے توبہ کرنے والے ہوں ، اگرکسی گناہ سے ایک بار اخلاص کے ساتھ سچے دل سے تو بہ کی ہو او رپھر وہ گناہ دوبارہ سرزد ہوجائے توپھر دوبارہ توبہ کرلیں، اللہ تعالی کے حضور ندامت  اور شرمندگی کے ساتھ معافی مانگیں،فوراً اس گناہ کو چھوڑدیں اورآئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرلیں، اگر وہ گناہ حقوق العباد میں سے ہے  تو متعلقہ شخص سے بھی معافی  مانگ لیں او ر اگر اس کا کوئی مالی حق ہے  تو اس کو بھی ادا کریں، او ر اگر گناہ حقوق اللہ میں سے ہے ، مثلاً نماز،روزہ فوت  ہواہے تواس کی قضا کا اہتمام کریں،لہذا اگر سائل سے توبہ کرنے کے بعد دوبارہ گناہ سرزد ہوجائے او روہ مذکورہ شرائط کے  ساتھ دوبارہ توبہ کرلے، خواہ دن میں سترمرتبہ گناہ ہوجانےکے بعد توبہ کرے،  اللہ تعالی کی رحمت سے امید ہے کہ وہ اس گناہ کو معاف فرمادیں گے۔

البتہ آئندہ گناہوں سے بچنےکے لیے قرآن وحدیث کی روشنی میں بزرگوں کی بتائی ہوئی کچھ تدابیرہیں جنہیں اختیار کرنے سے گناہوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے:

۱۔سچی توبہ کرنے کے بعدپچھلے گناہ کویاد نہ کریں ، اور نہ ہی کسی سے اس کا ذکر کریں۔

۲۔جوگناہ ہواہے اس کے اسبا ب کے قریب بھی نہ جائیں  ۔

۳۔کسی متبعِ سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کریں اور ان سےاپنے روحانی امراض اور گناہوں کی اصلاح کرواتے رہیں۔

۴۔جتنا ہوسکے اپنی نشست وبرخاست نیک لوگوں کے ساتھ رکھیں۔

۵۔جب بھی کسی گناہ کا خیال دل میں آئے تو یہ تصور کریں کہ اللہ میرے ساتھ ہےاور اللہ مجھے دیکھ رہاہے ، اور وہ مجھے عذاب دینے اور دنیا وآخرت میں سزادینے پر قادر ہے ، خدانخواستہ اگر گناہ ہوگیا تو دنیا میں بھی رسوائی ہوگی اورقیامت میں اللہ تعالی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام مخلوق کے سامنے رسوائی ہوگی۔

قرآنِ کریم میں ہے:

"إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ‌ٱلتَّوَّٰابِينَ وَيُحِبُّ ٱلْمُتَطَهِّرِينَ".

(سورۃ البقرۃ،آیت:۲۲۲)

ترجمہ:یقیناً اللہ تعالی محبت رکھتے ہیں توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتے ہیں پاک صاف رہنےوالوں سے۔

(بیان القرآن)

سنن ابن ماجہ  میں ہے:

"عن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله - صلّى الله عليه وسلّم -: كلُّ ‌بني ‌آدم خطّاءٌ، وخير الخطّائين التوابون".

(سنن ابن ماجہ،ابواب الزہد،باب ذکر التوبۃ،رقم الحدیث:۴۲۵۱،ج:۵،ص:۳۲۱،ط:دار الرسالۃ العالمیۃ)

ترجمہ:" حضرت انس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہر بنی آدم (انسان) بہت زیادہ خطا کار ہے، اور (اللہ تعالی کے نزدیک) بہترین خطا کار وہ ہیں جوکثرت سے توبہ کرنے والے ہوں ۔"

شرح مسلم للنووی  میں ہے:

"قال أصحابُنا وغيرهم من العلماء: للتوبة ثلاثةُ شروطٍ: أن يُقلِع عن المعصية، وأن يندَم على فعلها، وأن يعزِم عزْماً جازماً أن لايعُود إلى مثلها أبداً، فإن كانت المعصية تتعلّق بآدميّ فلها شرطٌ رابعٌ، وهو ردّ الظُلامة إلى صاحبها أو تحصيل البراءة منه".

(شرح مسلم للنووی،کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ....،باب التوبۃ،ج:۱۷،ص:۲۵،ط:دار احیاء التراث العربی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100872

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں