بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

توبہ کرنے کے بعد بھی دل بے چین رہے تو کیا کرے؟


سوال

 مجھ سے  غلط الفاظ ادا ہوئے ہیں ،میں غصے میں آکر بالکل ہوش کھو بیٹھا تھا اور( نعوذ بااللہ) اللّٰہ کی خدائی کے بارے میں منہ سے گالیاں  نکلی ہیں ،بعد میں میں  نے توبہ بھی کی اور استغفار بھی کیا ہے اور آئندہ خود پر کنٹرول بھی کروں گا کہ ایسے الفاظ منہ سے نہ نکلیں،اس سب کےباوجود مجھے سکون نہیں ہے کہ اللّٰہ نے مجھے معاف کیا ہوگا کہ نہیں؟ قسم اللّٰہ کی پاک ذات کی، دل بہت بے چین ہے۔مہربانی  کریں،  اب  میرے لیے کیا حکم ہے  دین اسلام کی  روشنی میں؟ آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں سائل اگرخودکہہ رہاہے کہ "میں غصے میں آکر بالکل ہوش کھو بیٹھا تھا اور( نعوذ بااللہ) اللّٰہ کی خدائی کے بارے میں منہ سے گالیاں  نکلی ہیں"تو  چوں کہ اس کوپتہ تھا کہ میرے منہ سے گالیاں نکل رہی ہیں تواس صورت میں  سائل پر توبہ اور استغفار کے ساتھ  ساتھ  تجدیدایمان اوراگر وہ شادی شدہ ہو توتجدید نکاح لازم  ہے۔  اور اگرسائل خودنہیں کہہ رہا،  بلکہ کوئی اور سائل کےمتعلق یہ کہہ رہاہے  تو اس میں یہ تفصیل ہےکہ  اگر( نعوذ بااللہ) اللّٰہ کی خدائی کے بارے میں منہ سے گالیاں  نکلتےوقت سائل کوپتہ تھا کہ اس کے منہ سے گالیاں نکل رہی ہیں تواس صورت میں  بھی   سائل پر توبہ اور استغفار کے ساتھ ساتھ تجدیدایمان اور اگر وہ شادی شدہ ہو تو تجدید نکاح لازم  ہے۔ اوراگرمذکورہ کلمات کہتے وقت سائل کوبالکل ہوش  نہیں تھا،اپنے اورپرائے میں پہچان نہیں تھی  اور اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کی زبان سے کیاالفاظ اداہورہے ہیں تواس صورت میں سائل ایمان سے خارج نہیں ہوا۔

سائل خوف خدا ،تقویٰ،فرائض کی پابندی اورذکرالٰہی کااہتمام کرے،اور کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرے،ان شاء اللہ تعالیٰ دل کی بےچینی ختم ہوجائے گی۔

قرآن کریم میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:

"قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ."

(سورة الزمر، رقم الآیة:۵۳)

حدیث مبارکہ میں ہے :

"عن أبي عبيدة بن عبد الله، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: التائب ‌من ‌الذنب، كمن لا ذنب له."

"ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:گناہ سے توبہ کرنے والا  اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو" 

(سنن ابن ماجه،كتاب الزهد،باب ذكر التوبة،2/ 1419 ،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی  عالمگيری میں ہے:

"يكفر إذا وصف الله تعالى بما لا يليق به، أو سخر باسم من أسمائه، أو بأمر من أوامره، أو نكر وعده ووعيده، أو جعل له شريكا، أو ولدا، أو زوجة، أو نسبه إلى الجهل، أو العجز، أو النقص."

( کتاب السیر،الباب التاسع في احکام المرتدین، (2/ 258)ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101990

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں