بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قرض پر نفع لینے کی ایک صورت کا حکم


سوال

میں اپنے زمینداروں کو ایڈوانس رقم دیتا ہوں۔ پیاز کی فصل تیار ہونے میں پانچ سے چھ مہینے کا وقت لگتا ہے۔ جب پیاز تیار ہو کے میرے پاس آتا ہے، میں پیاز  بیچ کر اپنی رقم جو میں نے ایڈوانس کے طور پہ دی تھی وہ بھی کاٹتا ہوں ،اور 10 پرسنٹ کمیشن بھی لیتا ہوں . اگر ایڈوانس رقم نہ بھی دوں تو اگر کسی کا مال آجائے تو اس میں سے بھی یہی کمیشن لیتا ہوں۔  کیا یہ کاروبار شریعت کے رو سے جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ  مطہرہ کی رو سے خرید وفروخت کے وقت کوئی ایسی  شرط لگانا جائز نہیں جس میں بائع یا مشتری کا فائدہ ہو اور وہ شرط  مقتضائے عقدکے  خلاف ہو ،نیز قرض خواہ  کے لیے قرض  کے بدلے ایسی شرط لگانے  سے اجتناب  ضروری  ہے ،صورتِ مسئولہ میں  آپ کا زمیندار کو  اس شرط کے ساتھ قرض دیناکہ اس کی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار آپ ہی کی دکان کے ذریعے فروخت  كرنے کاپابند ہو  یہ شرعًا جائز نہیں ہے، یہ شرط شرعًا باطل  ہے جس کی  پابندی مقروض   زمیندار کے  لیے لازم  نہیں اور اس  طرح کی شرط عائد کرکے قرض دینے کی صورت میں اس کی پیداوار سے حاصل شدہ نفع بھی جائز نہیں ہو گا۔

البتہ اگر  قرض دیتے وقت اس طرح کی کوئی  شرط عائد نہ کی جائے اور  زمیندار  احسان کے بدلے بطور خیر خواہی خود ہی  آپ کی دکان میں اپنی پیداوار  لاکربیچےتو   یہ معاملہ شرعًا جائز  ہوگا،نیز    آپ نے جتنا قرض دیاہے  صرف اتنی رقم وصول کرنے کے آپ حق دار ہوں گے، اور اس صورت میں جب کہ آپ ہی کی دکان کے ذریعے فروخت کرنے کی شرط نہ لگائی گئی ہو اور نہ ہی  یہ عرف ہو تو  مال بکوانے پر اگر آپ  اتنا ہی کمیشن لیتے ہیں جتنا باز ار میں رائج ہو تو آپ کے لیے کمیشن لینا جائز ہے اور اگر بازار میں جتنا کمیشن لینے کاعرف اور رواج ہے آپ اس سے زیادہ وصول کرتے ہیں تو یہ نا جائز ہے۔

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"«ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قرض جر منفعة» وسماه ربا وعن محمد بن سيرين قال: أقرض عمر بن الخطاب رضي الله عنه أبي بن كعب رضي الله عنه عشرة آلاف درهم وكانت لأبي رضي الله عنه نخل بعجل فأهدى أبي بن كعب رضي الله عنه رطبا لعمر رضي الله عنه فرده عليه فلقيه أبي فقال: أظننت أني أهديت إليك لأجل مالك؟ ابعث إلى مالك فخذه فقال عمر لأبي رضي الله عنهما رد علينا هديتنا. وبه نأخذ فإن عمر رضي الله عنه إنما رد الهدية مع أنه كان يقبل الهدايا لأنه ظن أنه أهدى إليه لأجل ماله فكان ذلك منفعة القرض فلما أعلمه أبي رضي الله عنه أنه ما أهدى إليه لأجل ماله قبل الهدية منه وهذا هو الأصل؛ ولهذا قلنا: إن المنفعة ‌إذا ‌كانت ‌مشروطة في الإقراض فهو قرض جر منفعة وإن لم تكن مشروطة فلا بأس به حتى لو رد المستقرض أجود مما قبضه فإن كان ذلك عن شرط لم يحل؛ لأنه منفعة القرض وإن لم يكن ذلك عن شرط فلا بأس به؛ لأنه أحسن في قضاء الدين وهو مندوب إليه. بيانه في حديث عطاء قال: «استقرض رسول الله صلى الله عليه وسلم من رجل دراهم فقضاه وأرجح له فقالوا: أرجحت فقال: صلى الله عليه وسلم "

‌‌[كتاب الصرف،باب القرض والصرف فيه،٣٥/١٤،ط : دار المعرفة]

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع  میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو ‌أن ‌لا ‌يكون ‌فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض، فأما إذا كانت غير مشروطة فيه ولكن المستقرض أعطاه أجودهما؛ فلا بأس بذلك؛ لأن الربا اسم لزيادة مشروطة في العقد، ولم توجد، بل هذا من باب حسن القضاء، وأنه أمر مندوب إليه قال النبي عليه السلام: «خيار الناس أحسنهم قضاء»"

‌‌[كتاب القرض،فصل في شرائط ركن القرض،٣٩٠/٧،ط : دار الكتب العلمية]

النتف فی الفتاوی میں ہے:

"والآخر ان يجر الى نفسه منفعة ‌بذلك ‌القرض ‌او تجر اليه وهو ان يبيعه المستقرض شيئا بارخص مما يباع او يؤجره او يهبه او يضيفه او يتصدق عليه بصدقة او يعمل له عملا يعينه على اموره او يعيره عارية أو يشتري منه شيئا بأغلى مما يشتري او يستأجر اجارة باكثر مما يستأجر ونحوها ولو لم يكن سبب ذلك هذا القرض لما كان ذلك الفعل فان ذلك ربا وعلى ذلك قول ابراهيم النخعي كل دين جر منفعة لا خير فيه"

(‌‌انواع الربا،‌‌الربا في القروض،485/1،ط : مؤسسة الرسالة)

الاشباء النظائر میں ہے:

"‌ما ‌حرم ‌أخذه حرم إعطاؤه: كالربا"

‌‌[‌‌القاعدة الرابعة عشرة،132،ط : دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی   میں ہے:

"وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه۔ وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام۔"

(باب المرابحة و التولیة، فصل فی القرض،١٦٦/٥،ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌ولو ‌قال ‌اشتر ‌هذه ‌الجارية بألف درهم كان مشورة والشراء للمأمور إلا إذا زاد، على أن أعطيك لأجل شرائك درهما؛ لأن اشتراط الأجر له يدل على الإنابة اهـ.وأفاد أنه ليس كل أمر توكيلا بل لا بد مما يفيد كون فعل المأمور بطريق النيابة عن الآمر فليحفظ اهـ"

(‌‌كتاب الوكالة،٥٠٩/٥،ط : دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100232

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں