بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق سے متعلق ایک مسئلہ کا حکم


سوال

ایک عورت نے دو لاکھ حق مہر معاف کرکےاپنے شوہر سے طلاق لے لی، اور شوہرنے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں،عورت نے تین مہینے بعد  نکاح کر لیا، تو کیا نکاح درست ہے؟ تین الگ الگ  طلاق نہیں لی، بلکہ اکٹھی ہی لی ہیں ،اب عورت کو اطمینان نہیں ہے کہ کچھ غلط تو نہیں کردیا ،اگر تین طلاق کو ایک شمار کیاجائے ، اب جب عورت  نے شادی کر لی ہے تو اب کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو مہر کے بدلہ میں تین طلاقیں دے دی ہیں  تواسی وقت یہ تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اورمیاں بیوی دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوگئے ہیں،تین طلاقیں تین ہی شمارہوتی ہیں نہ  کہ ایک  ۔

اگر مذکورہ عورت  کی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر ایام آتے ہوں اور حمل کی صورت میں بچے کی پیدائش تک) گزر گئی تھی اورپھر  عدت گزر جانےکے بعد کسی اورشخص کے ساتھ نکاح کیا ہے تو مذکورہ نکاح درست ہے ،اوراگرعدت کے دوران نکاح کیاہے تو پھر مذکورہ نکاح شرعاً درست نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"إن طلقها على مال فقبلت وقع الطلاق ولزمها المال وكان الطلاق بائنا كذا في الهداية".

(كتاب الطلاق،الباب الثامن في الخلع وما في حكمه،الفصل الثالث في الطلاق على المال،ج:1،ص:495،ط:رشيديه)

بدائع  الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية ... سواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج. سواء كانت العدة عن طلاق أو وفاة أو دخول في نكاح فاسد أو شبهة نكاح، كذا في البدائع."

(كتاب النكاح، الباب الثالث في بيان المحرمات، القسم السادس المحرمات التي يتعلق بها حق الغير:ج:1،ص: 280، ط: ماجديه)

فتاوی شامی میں ہے:

 وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث.

(كتاب الطلاق،ج:3،ص:233،ط:سعید)

احكام القرآن للجصاص میں ہے :

"فالكتاب والسنة وإجماع السلف توجب إيقاع الثلاث معا وإن كانت معصية."

 (ج:1،ص:529، ط: قدیمی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101885

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں