بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جھوٹی سی وی بنانے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: نوکری حاصل کرنے کے لیے تھرڈ پارٹی کمپنیوں کا استعمال کیا جاتا ہے، جو  آپ کو ٹریننگ دینے کے بعد آپ کا کچھ عرصے کی جھوٹی سی وی تیار کر کے آپ کو نوکری دلواتے ہیں۔(اور ان تھرڈ پارٹی کمپنیوں کے بغیر نوکری حاصل کرنے ناممکن درجہ تک مشکل ہے  باوجود اس کے کہ آپ کے پاس تعلیم کی اصل اسناد بھی موجود ہوں، جیسے کہ امریکا،کینیڈا وغیرہ)جس میں ان کا اپنا کمیشن بھی ہوتا ہے۔کمپنی کچھ شرائط کے ساتھ  ہائیر کرتی ہے جس میں ایک بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ کمپنی آپ کو  فی گھنٹہ کے اعتبار سے پے کرے گی نہ کہ فی پروجیکٹ کے اعتبار سے، جب کہ امپلائز کام وقت سے پہلے ختم کر کے فارغ بیٹھے رہتے ہیں اور ٹائم پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔(اس کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے کام کرنے کی سپیڈ بہت زیادہ ہوچکی ہوتی ہے تجربہ کی بنا پر)کیوں کہ اکثر آئی ٹی کمپنیوں میں اگر آپ وقت سے پہلے کام کو سبمٹ کر دیتے ہیں تو وہ آپ کو خائن سمجھ کر نوکری سے فارغ کر دیتے ہیں بقول ان کی شرط کے کہ ہم نے آپ کو فی گھنٹہ کے حساب سے ہائیر کیا ہے نہ کہ فی پروجیکٹ کےاعتبار سے ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  ایسے ادارے   میں   جاب کرناجو  جعلی ڈگری  بناتا ہو ، یا ان کے ذریعے جعلی سی وی یا ڈگری بنوانا، جھوٹ، خیانت، دھوکا دہی، فریب اور حق داروں کی  حق تلفی جیسے گناہوں پر مشتمل ہونے  کی وجہ سے ناجائز ہے، لہذا  جعلی طریقہ سے  ڈگری حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔اس پر توبہ واستغفار کرنالازم ہے۔اس بنیاد پر نوکری اور ملازمت حاصل کرنے کی جستجو کرنا بھی  درست نہیں  ہے۔

باقی  تھرڈ پارٹی کمپنی کا طریقِ کار کیا ہوتا ہے، یہ مکمل وضاحت سے بیان کیا جاتا تو اگلے جز کا جواب زیادہ واضح ہوتا، اصولی جواب یہ ہے کہ یہ کمپنی اگر ملازم سے فی گھنٹے کے اعتبار سے معاوضہ طے کرتی ہے تو ملازم وقت دینے کا پابند ہوگا، اگرچہ وقت سے پہلے کام مکمل کرلے، اور اس معاوضے کے حلال ہونے کا تعلق اس سے ہے کہ اگر وہاں پر کیا جانے والا کام فی نفسہ جائز ہو تو اس کی آمدن  حلال ہوگی، بشرطیکہ مذکورہ   شخص   متعلقہ ملازمت اور نوکری کی صلاحیت رکھتا  ہو اور اس کے تمام امور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتا  ہو ، اس لیے کہ تن خواہ کے حلال ہونے کا تعلق فرائض کی درست ادائیگی سے  ہے، اور اگر   وہ شخص  اس ملازمت  اور نوکری کا اہل نہیں ہے، یا اہل تو ہے مگر دیانت داری کے ساتھ کام نہیں کرتا  تو اس کی تن خواہ حلال نہیں ہوگی۔  کمپنی  جو پروجیکٹ دے اس کوسائل   ایک ہفتہ میں کر  ے یا ایک گھنٹہ میں دونوں صورتیں  درست ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أنس رضي اللّٰه عنه قال: ما خطبنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم إلا قال: لا إیمان لمن لا أمانة له، ولا دین لمن لا عهد له".

(مشکاة المصابیح ۱؍۱۵)

"عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: من غش فلیس منا".

(سنن الترمذي، باب ما جاء في کراهیة الغش في البیوع، ۱؍۲۴۵)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200145

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں