کسی کا سوال ہے کہ انہوں نے کچھ پیسے زکاۃ کے لیے الگ رکھے تھے، لیکن اس صورتِ حال میں وہ پیسے پہنچانا ممکن نہیں، وہ ایک سکول میں کام کرتی ہیں اور وہاں کے پرنسپل کو زکاۃ دینا چاہ رہی ہیں؛ تاکہ وہ آگے مستحق تک پہنچا دے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وہ پرنسپل سے کہہ دے کہ میری تنخواہ (اس مہینے کی جو اب تک ان تک پہنچی نہیں ہے)اس سے آپ میری زکاۃ کے پیسے دے دیں اور جو پیسے انہوں نے اپنے پاس رکھے تھے اسے خرچ کر دیں؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ خاتون اگرپرنسپل کو اجازت دے دیں اور اختیار دے دیں کہ ان کی تنخواہ کی رقم سے ان کی زکاۃ ادا کردی جائے اور مستحقین تک پہنچادی جائے تو اس سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔اور جو رقم اس خاتون نے اپنے پاس علیحدہ کرکے رکھی تھی اسے اپنے استعمال میں لاسکتی ہیں؛ کیوں کہ یہ رقم ابھی تک ان کی ملکیت میں موجو دہے ، اس لیے اب اسے زکاۃ میں صرف کرنا لازم نہیں ۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (4 / 55):
"...أن الزكاة عبادة عندنا والعبادة لاتتأدى إلا باختيار من عليه إما بمباشرته بنفسه ، أو بأمره ، أو إنابته غيره فيقوم النائب مقامه فيصير مؤديا بيد النائب". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202903
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن