بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تنہا ایک روزہ رکھنا


سوال

 کیا  ہم سنگل روزہ   رکھ   سکتے  ہیں؟ یا دو لازمی ہیں؟ اور  اگر لازمی ہیں تو کیا ہم ایک دن روزہ رکھ کے ایک دن کے بعد روزہ  رکھ سکتے  یا لگاتار  2  رکھنے  ہیں؟

جواب

نفلی روزے ہوں یا  رمضان کی قضا کے  روزے،  انہیں    تنہا ایک  رکھنا یا ایک دن چھوڑ کر ایک دن رکھنا یا دو دن پے در پے رکھنا سب صورتیں جائز ہے،     نہ  دو دن پے در پے  مستقل روزے رکھنے ضروری ہیں  اور نہ ہی ایک دن  چھوڑ کر ایک دن رکھنا ضروری ہے،  جس طرح سہولت ہو اس طرح روزے رکھنا جائز ہے۔

البتہ عاشوراء  (دس محرم الحرام)کے روزے کے ساتھ  نویں محرم یا دسویں محرم کو بھی روزہ رکھنا چاہیے، اسی طرح   خاص  جمعہ کی دن کی فضیلت سمجھ کر  خاص اسی دن روزے کا اہتمام  نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اگرسہولت ہو تو اس کے آگے پیچھے بھی ایک دن روزہ رکھ لیا جائے،تاہم خاص جمعہ کو بھی کوئی روزہ رکھ  لے تو گناہ گار نہیں ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"وَالْمَنْدُوبَ كَأَيَّامِ الْبِيضِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَيَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلَوْ مُنْفَرِدًا.

(قَوْلُهُ: وَيَوْمُ الْجُمُعَةِ وَلَوْ مُنْفَرِدًا) صَرَّحَ بِهِ فِي النَّهْرِ وَكَذَا فِي الْبَحْرِ فَقَالَ: إنَّ صَوْمَهُ بِانْفِرَادِهِ مُسْتَحَبٌّ عِنْدَ الْعَامَّةِ كَالِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ وَكَرِهَ الْكُلَّ بَعْضُهُمْ اهـ وَمِثْلُهُ فِي الْمُحِيطِ مُعَلَّلًا بِأَنَّ لِهَذِهِ الْأَيَّامِ فَضِيلَةً وَلَمْ يَكُنْ فِي صَوْمِهَا تَشَبُّهٌ بِغَيْرِ أَهْلِ الْقِبْلَةِ كَمَا فِي الْأَشْبَاهِ وَتَبِعَهُ فِي نُورِ الْإِيضَاحِ مِنْ كَرَاهَةِ إفْرَادِهِ بِالصَّوْمِ قَوْلُ الْبَعْضِ وَفِي الْخَانِيَّةِ وَلَا بَأْسَ بِصَوْمِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ لِمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَانَ يَصُومُهُ وَلَا يُفْطِرُ. اهـ. وَظَاهِرُ الِاسْتِشْهَادِ بِالْأَثَرِ أَنَّ الْمُرَادَ بِلَا بَأْسٍ الِاسْتِحْبَابُ وَفِي التَّجْنِيسِ قَالَ أَبُو يُوسُفَ: جَاءَ حَدِيثٌ فِي كَرَاهَتِهِ إلَّا أَنْ يَصُومَ قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ فَكَانَ الِاحْتِيَاطُ أَنْ يَضُمَّ إلَيْهِ يَوْمًا آخَرَ. اهـ. قَالَ ط: قُلْت: ثَبَتَ بِالسُّنَّةِ طَلَبُهُ وَالنَّهْيُ عَنْهُ وَالْآخِرُ مِنْهُمَا النَّهْيُ كَمَا أَوْضَحَهُ شُرَّاحُ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ؛ لِأَنَّ فِيهِ وَظَائِفَ فَلَعَلَّهُ إذَا صَامَ ضَعُفَ عَنْ فِعْلِهَا." (375/2) 

العرف الشذي شرح سنن الترمذي میں ہے: 

"وحاصل الشريعة: أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً، فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، و لايحكم بكراهة؛ فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً، وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه"(2/ 177).

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں