بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خطبے کے دوران مقتدیوں کو تنبیہ کرنا


سوال

کافی دن پہلے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ اگر جمعے کے خطبے کے دوران مقتدی حضرات بات چیت یا لایعنی امور میں مشغول ہوں تو امام کے لیے جائز ہے کہ خطبہ روک کر ان کو تنبیہ کر دے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ 

جواب

دورانِ خطبہ (خواہ جمعہ کا خطبہ ہو، یا نکاح وعدین کا خطبہ ہو)    سامعین کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور کسی بھی طرح کے کلام یا لایعنی امر سے منع کیا گیا ہے، یہاں تک کہ دو خطبوں کے درمیان ذکر بھی دل ہی دل میں کرنا  چاہیے، زبان سے نہیں کرنا  چاہیے،  اور خطبے کے دوران کوئی بات چیت کرے یا کنکریوں سے کھیلے تو بھی دیگر سامعین کو دورانِ خطبہ جمعہ نصیحت نہیں کرنی چاہیے، تاہم مذکورہ حکم سے امام وخطیب مستثنی ہیں، لہذا خطیب دورانِ خطبہ  یا دوخطبوں کے درمیان بوقتِ  ضرورت امربالمعروف وغیرہ پر مشتمل کلام  (جیسے مقتدی حضرات کو لایعنی امور سے منع کرنا وغیرہ)کرسکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"أن كل ما حرم في الصلاة حرم في الخطبة؛ فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف إلا من الخطيب لأن الأمر بالمعروف منها بلا فرق بين قريب وبعيد في الأصح ولا يرد تحذير من خيف هلاكه لأنه يجب لحق آدمي وهو محتاج إليه، والإنصات لحقه تعالى، ومبناه على المسامحة والأصح أنه لا بأس، بأن يشير برأسه أو يده عند رؤية منكر، وكذا الاستماع لسائر الخطب كخطبة نكاح وختم وعيد على المعتمد." 

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:545، ط:ايج ايم سعيد)

حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"والتکلم به من غير الامام حرام." 

(كتاب الصلوة، باب الجمعة، ج:1، ص:552، ط:قديمى كتب خانه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144211201482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں