بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تم کو آزادی ہے


سوال

میری اہلیہ اپنے بچوں سمیت خالہ کے گھر گئی تھی،اس سے پہلے وہ بیمار تھی میں اس کو اس کے والدہ کے گھر چھوڑ کر آیا تھا،جب وہاں سے وہ واپس آئی تو اس نے ناراضگی  کا اظہار کیا کہ تم نے بیماری کےوقت میرا خیال نہیں رکھا،اس لیے وہ بچوں سمیت اپنے خالہ کے گھر گئی ،میں اس کو منا کر واپس لے آیا اس وقت میرے بچے کی طبیعت خراب تھی تومیں نے اپنی بیوی کو کہا کہ ماں کے گھر جاتی ہو یا خالہ کے گھر جاتی ہو جہاں جانا چاہتی ہو تم کو آزادی ہے لیکن میر ے بچوں کو اپنے ساتھ نہ لے جانا،اللہ جانتا ہے اور میں اس بات پرحلف کے لیے بھی تیار ہوں کہ اس سے میری اس کو چھوڑنے یا طلاق کی نیت نہیں تھی کیا اس سے طلاق واقع ہوئی؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی سے یہ کہا  کہ " ماں کے گھر جاتی ہو یا خالہ کے گھر جاتی ہو جہاں جانا چاہتی ہو تم کو آزادی ہے لیکن میر ے بچوں کو اپنے ساتھ نہ لے جانا"  اور اس کہنے میں  سائل کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نہیں تھی  اور بات کا سیاق وسباق بھی اس  کی تائید کررہا ہے تو ان الفاظ  کے کہنے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی اور میاں بیوی کا نکاح بدستور باقی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

(قوله ويقع الطلاق إلخ) يعني إذا قال لامرأته: ‌أعتقتك تطلق إذا نوى أو دل عليه الحال

(مطلب اعتبار عدد الطلاق بالنساء ج246/3ط؛سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

ولو قال أعتقتك طلقت بالنية كذا في معراج الدراية. وكوني حرة أو اعتقي مثل أنت حرة كذا في البحر الرائق

(الباب الخامس فی الکنایات فی الطلاق  ج376/1 ط: دارلفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100723

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں