بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’تم آزاد ہو‘‘الفاظ سے طلاق کا حکم


سوال

 ایک شوہر پراپرٹی کا کام کرتا ہے گھر کی خرید و فروخت کرتا ہے، جب بھی گھر کی اچھی قیمت وصول ھوجاتی ،شوہر وہ گھر فروخت کر کے دوسرے نئے گھر میں اپنی بیوی بچوں کو شفٹ کر دیتا ، ڈیڑھ سال پہلے جب شوہر نے گھر فروخت کیا اور گھر کی رقم بھی وصول کر کے معاہدہ بھی دوسرے فریق کو لکھ کے دے دیا تھا، اس کے ایک ماہ بعد جب بیوی کو اس کا معلوم ہوا تو بیوی شوہر سے ناراض ہوگئی اور شوہر کے کام میں اعتراض کرنے لگی کہ گھر کی ڈیل کینسل کر دو، لیکن معاہدہ کینسل کرنا بہت مشکل تھا، تو بیوی شوہر سے کہنے لگی کہ وہ گھر فروخت نہیں ہونے دے گی ،چاہے مکان کو عدالت میں اسٹے کروانا پڑے یا دوسرے فریق پارٹی کے گھر جانا پڑے تو جاوں گی اور ان سے بولوں گی کہ ہمارا یہ والا گھر آپ میرے شوہر سے نہ خریدیں اور میرے شوہر سے پیسے واپس لے کر یہ ڈیل کینسل کر دیں، جو کہ یہ سب نا ممکن تھا، یہ بات چیت شوہر کے والد صاحب کے سامنے ہو رہی تھی، اس دوران شوہر نے اپنی بیوی کو غصہ میں اور ناراض ہو کے یہ کہا کہ’’ تم آزاد ہو‘‘ یا شوہر نے شاید ایسا کہا ہو کہ’’ تمہیں آزاد کیا‘‘، یا’’ آزادی ہے‘‘۔

بات ڈیرھ سال پرانی ہو چکی ہے شوہر کو اپنے واضح الفاظ بھی یاد نہیں ہیں۔ شوہر کا اپنی بیوی سے کہنے سے یہ مراد تھا کہ اس معاملے میں تمھیں آزاد کیا یا تم آزاد ہو ،جو کرنا ہے کرو ،یعنی عدالت میں مکان اسٹے کروانا ہو ،یا دوسرے فریق کے گھر جا کے مکان کی ڈیل کینسل کروانا ہو بیشک ان تمام معاملات میں تم آزاد ہو، یا تمھیں آزاد کیا اس معاملے میں۔ بیوی بولتی ہے کہ شوہر نے ایسا کہا تھا کہ ’’تمھیں آزاد کیا ‘‘مگر شوہر کو یہ الفاظ بالکل بھی یاد نہیں ہیں۔۔ یعنی شوہر کا اس قرینہ کے مطابق کہنے کا یہی مراد تھا کہ ان تمام معاملات میں بیوی آزاد ہے یا اس کو آزادی ہے، شوہر نے اللہ کو حاظر ناظر کر کے حلف اٹھایا کہ شوہر کا ایک فیصد بھی نہ طلاق دینے کا ارادے تھا اور نہ ایک فیصد طلاق دینے کی اس میں نیت تھی بلکہ شوہر کے حاشیہ اور خیالوں میں بھی ایسی بات نہیں تھی اور نا وہم و گمان میں ایسی بات تھی بلکہ شوہر نے ایک لغو بات کے طور پر ایسا کہا کہ بیوی کو آزادی ہے جیسا کرے اس کو اختیار ہے، بیوی بھی آزاد ہے اور شوھر بھی آزاد ہے اس معاملے میں، یعنی تمھارے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تو نہیں ہیں، جو من میں آئے وہ کرو تم خود مختار ہو ۔۔ شوھر نے کم علمی سے ایسا کہا تھا، شادی کو 26 سال پورے ہوگئے ہیں، 4 بچے بھی جوان ہو چکے ہیں، ایک بیٹی اور ایک بیٹا کی شادی بھی ہوگئی ہے ،دیگر 2 بیٹیاں بھی جوان ہیں،انما الاعمال بالنیات- حدیث۔۔ اس بات میں کیا شرعی حکم ہوگا ؟

نوٹ:  اس دوران مذاکرہ طلاق کی کوئی بھی بات چیت نہیں ہو رہی تھی، کیونکہ گھر کے بزرگ بھی موجود تھے، ایسی کوئی بھی بات نہیں ہوئی تھی۔ قرینہ کے مطابق شوہر کابیوی سے کہنے کا صرف یہی مقصد تھا کہ تم اس امور میں اور اس معاملے میں آزاد ہو، اس بات پر شوہر اللہ کی قسم اور قرآن پاک پر حلف بھی دینے  کے لیے تیار ہے!

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ بات چیت کے دوران بیوی نے اپنے شوہر سے اس معاملہ میں کسی قسم کی آزادی کا مطالبہ نہیں کیا تھا ،لہذا مذکورہ بات چیت کے دوران شوہر نے غصہ کی حالت میں ناراض ہوکر ’’آزاد ‘‘ کے جو الفاظ استعمال کیےکہ ’’تم آزاد ہویا تمہیں آزاد کیا ‘‘ تو اس  سےاس کی بیوی پر  ایک طلاق بائن واقع ہوگئی  اور نکاح ختم ہو گیا،اگرچہ شوہر نے طلاق کی نیت بھی نہ کی ہو اور مذاکرہ طلاق بھی نہ ہو ،کیونکہ ہمارے عرف میں لفظ ’’آزاد‘‘ طلاق کا لفظ ہے اور اس مقصد کے لیے بالکل صریح ہے،لہذا اس میں نیت کی ضرورت نہیں ۔ نکاح ختم ہوجانے کے بعد دوبارہ نکاح کیے بغیر ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں تھا ،اب تک دونوں جو ساتھ رہے ہیں اس پر دونوں خوب توبہ واستغفار کریں ،اور اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنے پر رضامند ہوں تو شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب وقبول اور  نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کرسکتے ہیں ، اورتجدید نکاح کے بعد شوہر کو آئندہ کے لیے دو طلاقوں کا حق حاصل ہوگا۔

الدر المختا ر مع رد المحتار میں ہے:

’’وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية‘‘

(کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

’’والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم.‘‘

(کتاب الطلاق،فصل فی النیۃ،ج:3،ص:102،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو أنت حرة أو أنت أعلم بشأنك. فقالت: اخترت نفسي. يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء.‘‘

(کتاب الطلاق،الفصل الخامس،ج:1،ص:375،ط:دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

’’سوال:زید نے اپنی بیوی کے متعلق یہ سنا کہ وہ کچھ آوارہ ہوگئی ہے،اس پر زید نے کہا کہ اگر ایسا ہےتو وہ میرے لیے بیکار ہےاور میں نے آزاد کیا ،اس کے بعد معلوم ہوا کہ اس خبر کی کوئی اصلیت نہیں ہے تب زید اپنی بیوی کو لینے کے لیے گیا،بیوی نے کہا کہ تم تو مجھے آزاد کرچکے ہو ،زید نے کہا کہ تمہارا یہاں رہنا کسی طرح مناسب نہیں ہے ،تم میرے ساتھ چلو اور اگر کچھ تردد ہو تو اطمینان رکھو ،میں ماں بہن ہی سمجھ کر خرچ دوں گا،ایسی صورت میں شرعا کیا حکم ہے؟

جواب:زید اپنی بیوی سے (احتیاطا)نکاح کی تجدید کرلے،یعنی دو گواہوں کے سامنے میاں بیوی ایجاب وقبول کرلیں۔‘‘

(جواب363،ج:6،ص:384،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408102087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں