”فضائل جہاد“میں صفحہ نمبر350پرحضرت مولانامسعودازھرصاحب نےبحوالہ شفاءالصدورحضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ رویت نقل کی ہے"کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالی کے راستے میں تلوار باندھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز دوسرے لوگوں سے ستر گنا افضل ہے اور اگر تم کہو کہ سات سو گنا افضل ہے تو وہ بھی درست ہے کیونکہ میں نے حضور اکرم ﷺ سے سنا آپ سﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی اپنے راستے میں تلوار باندھنے والے پر فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں اور جب تک وہ تلوار باندھے رکھتا ہے فرشتے اس کے لئے رحمت کی دعاء کرتے رہتے ہیں "۔اورپھرصفحہ نمبر756پردوبارہ بحوالہ کنزالعمال( 238/4)اسی روایت کوذکرکیاہے، نیزکنزالعمال کےحوالےسےحضرت نےیہ بھی لکھاہےکہ اس کی سندصحیح ہے۔
مجھےیہ پوچھناہےکہ یہ ثواب کی زیادتی جہادمیں تلوارباندھنےکےساتھ خاص ہےیاکہیں بھی تلوارباندھ کرنمازپڑھی جائے؟
اس کااطلاق آج کل کے جدیداسلحہ کلاشنکوف وغیرہ پربھی ہوگایانہیں؟
تلوارجسم کےساتھ بندھی ہوئی ہو تب یہ ثوب ملےگا، اس کےبغیرنہیں ملےگایااگرزمین پررکھی ہوتب بھی یہ ثواب ملےگا، کیونکہ عام طورپرمجاہدین کی جوویڈیوزوائرل ہوتی ہےوہ کلاشنکوف سامنےرکھ کرنمازپڑھ رہےہوتےہیں۔
مذکورہ حدیث کےبارےمیں محدثین کی رائےیہ ہےکہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے، بعض حضرات نےتوموضوع تک کہدیاہے، کیونکہ اس کی سند میں ضرارابن عمروہےاوروہ متروک راوی ہے، امام بخاریؒ تاریخ کبیر(339/4، ط:دائرة المعارف العثمانية)میں اس راوی کےمتعلق فرماتےہیں"فيه نظر"، الكامل لإبن عدی میں اس راوی کےمتعلق فرمایاگیاہے"ليس بشيء، ولا يكتب حديثه"، لہذااس راوی کےروایات کااعتبانہیں، نیزکنزالعمال میں اس روایت کی سندکےبارےمیں کچھ کلام نہیں ہے، نہ ہی اس کی تصحیح کی ہے، البتہ میدان جہادمیں اللہ کےراستےمیں کی گئی عبادات کاثواب عام حالات میں کی گی عبادت سےبڑھ کرہوتاہے، شرعی نصوص سےثابت ہے، نیزاللہ کےرسول ﷺ کےعہدمبارک میں گھوڑےکی سواری، شمشیرزنی اورتیراندازی وغیرہ کی مشق کرناسامان جہادتھا۔اورآج بندوق، توپ، ہوئی جہازاورآبدوزکشتیاں وغیرہ سامان جہادہے، لہذاجوفضیلت آپ ﷺکےمبارک دورکےسامان ِجہادکےذریعےحاصل کیاجاتاتھا، وہی فضیلت اورثواب اس دورکےسامان جہادسےبھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
{وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ} (سورة الأنفال، الآیة:60)
"اوران کافروں کےلیےجس قدرہوسکےہتھیارسےاورپلےہوئےگھوڑوں سےسامان درست رکھو۔"(بیان القرآن)
تفسیرابن کثیرمیں ہے:
"{مثل الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله كمثل حبة أنبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم(٢٦١) }
"هذا مثل ضربه الله تعالى لتضعيف الثواب لمن أنفق في سبيله وابتغاء مرضاته، وأن الحسنة تضاعف بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف، فقال: {مثل الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله} قال سعيد بن جبير: في طاعة الله. وقال مكحول: يعني به: الإنفاق في الجهاد، من رباط الخيل وإعداد السلاح وغير ذلك، وقال شبيب بن بشر، عن عكرمة، عن ابن عباس: الجهاد والحج، يضعف الدرهم فيهما إلى سبعمائة ضعف؛ .....قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الصلاة والصيام والذكر يضاعف على النفقة في سبيل الله سبعمائة ضعف."
(سورۃ البقرۃ، 691/1، ط:دارطیبة)
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة: صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله، وارموا واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعدما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها أو قال: كفرها."
(کتاب الجھاد، باب في الرمي، 320/2، ط:المطبعة الأنصارية)
اس حدیث کےتحت بذل المجہودمیں ہے:
"ولم يكن في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحرب إلا رمي السهام، فيدخل بل يعوض عنه فيه ما يرمى به من الرصاص بالبندقية والمدافع وغير ذلك من آلات الحرب الجديدة المستعملة في هذا الزمان، فإنها أغنت عن رمي السهام بالقوس، وعطلته."
(کتاب الجھاد، باب في الرمي، ج:9، ص:68، ط:مركز الشيخ أبي الحسن)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(كل شيء يلهو به الرجل) : أي: يشتغل ويلعب، (باطل) : لا ثواب له (إلا رميه بقوسه) : احتراز عن رميه بالحجر والخشب (وتأديبه فرسه) : أي: تعليمه إياه بالركض والجولان على نية الغزو (وملاعبته امرأته، فإنهن من الحق) : أي: وليس من اللهو الباطل فيترتب عليه الثواب الكامل، وفي معناها كل ما يعين على الحق من العلم والعمل إذا كان من الأمور المباحة، كالمسابقة بالرجل والخيل والإبل، والتمشية للتنزه على قصد تقوية البدن، وتطرية الدماغ، ومنها السماع إذا لم يكن بالآلات المطربة المحرمة."
(کتاب الجھاد، باب إعداد آلة الجهاد، 2502/6، ط:دار الفکر)
کنزالعمال میں ہے:
"إن الله عز وجل يباهي بالمتقلد سيفه في سبيل الله ملائكته وهم يصلون عليه ما دام متقلده". "الخطيب عن علي.
صلاة الرجل متقلدا بسيفه تفضل على صلاته غير متقلد بسبعمائة ضعف". "الخطيب عن علي."
(کتاب الجھاد، المسابقة من الإكمال، 338/4، ط:مؤسسة الرسالة)
موضوعات ابن جوزی میں ہے:
"أنبأنا أبو منصور القزاز أنبأنا أبو بكر أحمد بن علي أنبأنا أبو طاهر محمد ابن علي الحافظ حدثنا مخلد بن جعفر الدقاق حدثنا العباس بن أحمد بن أبي شحمة حدثنا دهثم بن الفضل حدثنا رواد بن الجراح حدثنا أبو صالح الجزري عن ضرار بن عمرو عن مجاهد عن علي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صلاة الرجل متقلدا سيفه يعني تفضل على صلاة غير متقلد سبعمائة ضعف.وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله تعالى يباهي بالمتقلد سيفه في سبيل الله ملائكته، وهم يصلون عليه مادام متقلده ".
هذا حديث لا يصح.قال يحيى: ضرار بن عمرو ليس بشئ ولا يكتب حديثه، وقال الدارقطني: ذاهب متروك."
(کتاب الجھاد، 226/2، ط:محمد عبد المحسن)
الكامل في ضعفاء الرجال میں ہے:
"حدثنا علي بن أحمد بن سليمان، حدثنا أحمد بن سعد، قال: سألت يحيى بن معين عن الضرار بن عمرو فقال ليس بشيء، ولا يكتب حديثه.
سمعت ابن حماد يقول ضرار بن عمرو روى عنه الحكم بن عمرو فيه نظر."
(ضرار بن عمرو ويقال إنه من أهل ملطية، 160/5، ط:الكتب العلمية)
اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة(للسیوطی) میں ہے:
"عن ضرار بن عمر عن مجاهد عن علي مرفوعا: صلاة الرجل متقلدا سيفه تفضل على صلاته غير متقلد سبعمائة ضعف إن الله تعالى يباهي بالمتقلد سيفه في سبيل الله ملائكته وهم يصلون عليه ما دام متقلده. لا يصح ضرار متروك."
(کتاب الجھاد، 114/2، ط:دار الكتب العلمية)
زوائد تاريخ بغداد على الكتب الستة میں ہے:
"عن ضرار بن عمرو، عن مجاهد،عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "صلاة الرجل متقلدا سيفه -يعني تفضل- على صلاة غير المتقلد سبعمائة ضعف".....مرتبة الحديث:موضوع."
(الزوائد، رقم:1280، ج:6، ص:442، ط:دار القلم)
تفسیرعثمانی میں ہے:
"مسلمانوں پر فرض ہے کہ جہاں تک قدرت ہو سامان جہاد فراہم کریں۔ نبی کریم صلعم کے عہد مبارک میں گھوڑے کی سواری شمشیر زنی اور تیراندازی وغیرہ کی مشق کرنا، سامان جہاد تھا۔ آج بندوق، توپ، ہوائی جہاز ، آبدوز کشتیاں، آہن پوش کروز رو غیرہ کا تیار کرنا اور استعمال میں لانا اور فنونِ حربیہ کا سیکھنا ، بلکہ ورزش و غیرہ کرنا سب سامان جہاد ہے۔ اسی طرح آئندہ جو اسلحہ و آلات حرب و ضرب تیار ہوں، انشاء اللہ وہ سب آیت کے منشاء میں داخل ہیں۔"
(ج:1، ص:871، ط:دار الاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102290
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن