ایک شخص نے بیوی سے کہا کہ اگر دس دن میں دس قرآن نہ پڑھے تو طلاق سمجھو، مگر بعد میں الفاظ واپس لے لیے، کیا ایسی صورت میں طلاق ہوجائے گی؟
صورتِ مسئولہ میں بیوی سے یہ کہنا کہ" اگر دس دن میں دس قرآن نہیں پڑھے تو طلاق سمجھو" تو اس سے طلاق واقع نہیں ہو تی۔
ہندیہ میں ہے:
"امرأة قالت لزوجها: " مرا طلاق ده " فقال الزوج: "... داده أنگار أو كرده أنگار لا يقع وإن نوى ولو قال لها بعدما طلبت الطلاق."
(کتاب الطلاق، الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیۃ،ج1،ص380،ط: ماجدیہ)
خیر الفتاویٰ میں ہے:
"طلاق سمجھو دادہ انگار (دی ہوئی سمجھ لیں) کے مشابہ ہے، لہٰذا عورت پر طلاق واقع نہیں ہوئی۔"
(ج5،ص147،مکتبہ امدادیہ ملتان)
امدادالاحکام میں ہے:
"ان الفاظ میں باوجود نیت کے فقہاء نے عدمِ وقوعِ طلاق کی تصریح فرمائی ہے، کیوں کہ یہ لفظ معنی وعدہ میں صریح ہے،جس کی نظیر یوں ہے کہ کوئی سوالِ طلاق کے بعد یوں کہے "طلاق کنم طلاق کنم" تو اس سے بمعنی وعد کے وقوع نہ ہوگا۔"
(ج2،ص432، مکتبہ دار العلوم)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308101108
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن