بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق سمجھو سے طلاق واقع نہیں ہوتی


سوال

ایک شخص نے بیوی سے کہا کہ اگر دس دن میں دس قرآن نہ پڑھے تو طلاق سمجھو، مگر بعد میں الفاظ واپس لے لیے،  کیا ایسی صورت میں طلاق ہوجائے گی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں   بیوی سے  یہ  کہنا کہ" اگر دس دن میں دس قرآن نہیں پڑھے تو طلاق سمجھو" تو اس سے طلاق واقع نہیں ہو تی۔

ہندیہ میں ہے:

"امرأة قالت لزوجها: " ‌مرا ‌طلاق ‌ده " فقال الزوج: "... داده أنگار أو كرده أنگار لا يقع وإن نوى ولو قال لها بعدما طلبت الطلاق."

(کتاب الطلاق، الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیۃ،ج1،ص380،ط: ماجدیہ)

خیر الفتاویٰ میں ہے:

"طلاق سمجھو دادہ انگار (دی ہوئی سمجھ لیں) کے مشابہ ہے، لہٰذا عورت پر طلاق واقع نہیں ہوئی۔"

(ج5،ص147،مکتبہ امدادیہ ملتان)

امدادالاحکام میں ہے:

"ان الفاظ میں باوجود نیت کے فقہاء نے عدمِ وقوعِ طلاق کی تصریح فرمائی ہے، کیوں کہ یہ لفظ معنی وعدہ میں صریح ہے،جس کی نظیر یوں ہے کہ کوئی سوالِ طلاق کے بعد یوں کہے "طلاق کنم طلاق کنم" تو اس سے بمعنی وعد کے وقوع نہ ہوگا۔"

(ج2،ص432، مکتبہ دار العلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں