بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق معلق سے بچنے کی صورت


سوال

میری  اپنی بیوی سے لڑائی جھگڑا ہوا ، میں  نے غصہ میں اپنی بیوی سے کہا کہ ” تم نے اپنے ننھیال والے اور ان کےجاننے والوں میں سے کسی سے کسی قسم کارابطہ کیا تو میری طرف سے تین طلاق “ اس پر بیوی نے کہا کہ میں نہیں مانتی ، میں نے کہا یہ حق اللہ تعالی نے مجھے دیاہے اس لیے  میں اسے  استعمال کر رہاہوں تو اس نے کہا کہ ان لوگوں سے جو پیسے لیے ہیں وہ واپس  کرو ( وقتا فوقتا ان لوگوں نے ہماری مدد کی ہے ) میں نے کہا میں بغیرت ہوں نہیں دوں گا ، اس کے بعد میرے ذہن میں نہیں کہ اس نے کچھ کہایانہیں کہا  لیکن میں نے اس سے کہا کہ” اگر اپنے دونوں بھائیوں سے اوربہن سے رابطہ کیا تو میری طرف سے تین طلاق میری اجازت کے بغیر جب تک میں اجازت نہ دوں “ اس پرجھگڑا بڑھنے کا  ڈرتھا تو میں  باہر چلا گیا، پھر میں اپنے امام صاحب سے مسئلہ کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بہن بھائیوں کےلیے تو آپ نے اجازت دے دیں تو بات کرسکتی ہے ، تو میں نے اجازت دے دی ، اس کے بعد بیوی نے اپنی بہن سے بات وغیرہ بھی کرلی ہے ، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس مسئلے کا کیا حل ہے ؟ میں چاہتاہوں کہ پہلے والے الفاظ بھی  واپس لے لوں تاکہ وہ ننھیال اورر ان کے جاننے والوں سے بات کرسکے اور طلاق  واقع نہ ہو، کیا میں واپس لے سکتاہوں یانہیں؟  حل بتادیں ، واضح رہے کہ بیوی نے ابھی تکننھیال اور ان کے جاننے والوں سے اسی وجہ سے بات نہیں کی ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب سائل نے اپنی بیوی سے کہا کہ ” تم نے اپنے ننھیال والے اور ان کےجاننے والوں میں سے کسی سے کسی قسم کارابطہ کیا تو میری طرف سے تین طلاق “تو اس صورت میں اگر سائل کی بیوی نے اپنے ننھیال اور ان کے جاننے والوں میں سے کسی  سے بات کی تو سائل کی بیوی پر تینوں طلاق واقع ہوجائے گی ، بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی ، رجوع جائز نہ ہوگااور نہ ہی دوبارہ نکاح جائز ہوگی ، البتہ اس طلاق معلق سے بچنے کی صورت یہ ہے کہ سائل اپنی بیوی کو ایک طلاق   دے دے، عدت گزرجانے کے بعد سائل کی بیوی اپنے ننھیال اور ان کے جاننے والوں سے بات کرے،  پھر اس کے بعد سائل نئے مہر اورشرعی گواہوں کی موجودگی میں دوبارہ نکاح کرے تو اس کے بعد  اگر سائل کی بیوی ننھیال اور ان کے جاننے والوں سے بات کرتی ہے تو مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی اور سائل کو اس کے بعد دوطلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔

سائل نے اپنی بیوی کو جو  یہ کہاکہ  ” اگر اپنے دونوں بھائیوں  اوربہن سے رابطہ کیا تو میری طرف سے تین طلاق میری اجازت کے بغیر جب تک میں اجازت نہ دوں “ تو اس صورت میں جب سائل نے  اپنی بیوی کو ان  کے بہن بھائیوں   سے بات کرنے کی اجازت  دے دی اورسائل کی بیوی نے ان سے بات چیت بھی کی تو اس صورت میں سائل کی بیوی پر  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی  ۔

ردالمحتار میں ہے :

"لو حلف لا تخرج امرأته إلا بإذنه فخرجت بعد الطلاق وانقضاء العدة لم يحنث وبطلت اليمين بالبينونة، حتى لو تزوجها ثانيا ثم خرجت بلا إذن لم يحنث، قلت: اليمين مقيدة بحال ولاية الإذن والمنع بدلالة الحال وذلك حال قيام الزوجية فسقط اليمين بزوال الزوجية كما لو حلف لا يخرج إلا بإذن غريمه فقضى دينه ثم خرج لم يحنث،"

( کتاب الطلاق ،مطلب زوال الملك لا يبطل اليمين3/354ط:سعید)

الدرالمختار میں ہے:

"(وتنحل) اليمين(بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا، فحيلة من علق الثلاث بدخول الدار أن يطلقها واحدة ثم بعد العدة تدخلها فتنحل اليمين فينكحها."

کتاب الطلاق ، باب التعلیق 3/355ط: سعید)

ہندیہ میں ہے :

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق"

( كتاب الطلاق ،الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة1/420ط: دار الفكر)

مبسوط لسرخسیمیں ہے:

"وفوت محل الجزاء يبطل اليمين كفوت محل الشرط بأن قال:إن دخلت هذهالدار ثم جعل الدار حماما، أو بستانا لا يبقى اليمين فلهذا مثله بخلاف ما بعد بيع العبد؛ لأنه بصفة الرق كان محلا للعتق."

([باب من الطلاق6/94ط:دار المعرفة)

التجرید للقدوری میں ہے:

"فإذاخرجت بالإذنوجب أن يكون برًا يسقط به اليمين قياسًا عليه إذا قال: لها إن خرجت مرة واحدة إلا بإذني، فأنت طالق. فإذن لها فخرجت، بر في يمينه، وسقطت اليمين."

( کتاب الایمان 12/6482ط: دار السلام)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

سوال : زیدنے اپنی زوجہ  ہندہ کے ایک ماموں اورایک خالہ کی کسی بات سے غصہ ہوکر ان  دونوں سے تکلم پر طلاق کو معلق کردیا ، اگر ایک طلاق یادوطلاق یاتین طلاق معلق کیاہے ہر ایک کا کیاحکم ہے؟ اور ان دونوں میں سے کسی ایک سے تکلم پر طلاق واقع ہوگی یادونوں سے تکلم پر ؟ نیز جب کہ زیدکاغصہ فروہوگیا تو اپنی زوجہ کو ماموں اور خالہ سے تکلم کی اجازت دینا چاہتاہے تو طلاق معلق کے رفع کی کوئی صورت ہے یانہیں ، اگر ہے توہو کیاہے ؟

الجواب حامداومصلیا:

جتنی طلاقوں کو معلق کیاہے ، تحقق شرط پر اتنی  ہی طلاقیں واقع ہوں گی ، یعنی اگر ایک طلاق کو معلق کیاہے تو ایک ہوگی ، دوکومعلق کیا ہے تو دوہوں گی تین کو معلق کیاہے تو تین ہوں گی ، اگردونوں میں سے ہر ایک کے تکلم پر جداگانہ طور پر معلق کیاہے تو ہر ایک کے تکلم سے ہوجائے گی ، اگر دونوں کے تکلم پر مجموعی طورپر معلق کیاہے تو دونوں کے تکلم سے ہوگی ، ایک کے تکلم سے نہیں ہوگی ، ایک اور دوطلاق کے بعد رجعت کا اختیار باقی رہتاہے ، تین طلاق کے بعد مغلظہ ہوجاتی ہے نہ رجعت کا اختیار رہتاہے نہ بغیر حلالہ کے تجدید نکاح کی گنجائش رہتی ہے ، طلاق کو شرط پر معلق کردینے کے بعد اس  کو  منسوخ کرنے کاحق نہیں رہتا۔

اگر تین طلاق کو تکلم پر معلق کیاہے اور اب تکلم کی ضرورت ہے تو اس کی سہل صورت یہ کہ ایک طلاق منجز دیدے اور عدت گزرنے کے بعد تکلم ہوجانے پر دوبارہ نکاح کرلیاجائے  تو تکلم سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ، کیوں کہ شرط کا تحقق ایسی حالت میں ہواکہ وہ زوجہ محل طلاق نہیں رہی بلکہ مطلقہ ہوکر انقضائے عدت کے بعد اجبنیہ  بن گئی ، ۔۔۔

(کتاب الطلاق ،باب  تعلیق الطلاق  13/123 ط: فاروقیہ )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں