بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد عدت شروع ہوتی ہے


سوال

ہماری ایک رشتہ دار لڑکی کی شادی ہوئی، لڑکا کچھ مہینے یہاں گزار کے باہر ملک چلا گیا۔ ابھی اس لڑکے کو گئے 8 مہینے سے زیادہ ہو گئے ہیں، اس عرصہ میں علیحدگی ہو گئی اور لڑکی نے زیادہ وقت میکہ میں گزارا۔ لڑکا طلاق پر راضی ہے مگر دستخط کے لیے بیرون ملک بھجوائے کاغذات پر دستخط نہیں کر رہا، آج کل کہہ کر دیر کر رہا ہے، مگر صاف طور پر طلاق کے لیے راضی ہے، بول چکاہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ کاغذات دستخط کر کے جب بھی بھیجے گا تو لڑکی کو کتنا عرصہ عدت گزارنی ہو  گی؟ جبکہ انکوملے ہوئے 8 ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں عدت طلاق کے فورًا بعد شروع ہوجاتی ہے،چاہے طلاق سے پہلے  کتنا عرصہ بھی میاں بیوی ایک دوسرے سے دور  رہیں ،لہذا مذکورہ لڑکے نےتاحال اگر  زبانی یہ تحریری طور پر طلاق نہیں دی اور نہ ہی کسی طلاق نامہ پہ دستخط کیے ہیں   تو اس صورت میں نکاح قائم ہے ،لیکن طلاق نامہ پر  دستخط کر تے ہی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی جس کے فوری بعد عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اگر حمل ہوتو بچہ کی پیدائش تک )شروع ہو جائے گی عدت ختم ہو جانے کے بعد بیوی کا دوسری جگہ نکا ح کرنا جائز ہو گا ،باقی طلاق کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے پاکی کے ایام میں صرف ایک طلاق دے ،اگر فورا نکاح ختم کرنا مقصود ہو تو  ایک طلاق بائن دے تین طلاقیں اکھٹی نہ دے کیوں کہ اکھٹی تین طلاقیں دینا گناہ ہے اگرچہ اکٹھی دی گئیں تین طلاقیں بھی شرعا واقع ہوجاتی ہیں۔

تنویر الابصار مع درالمختار میں ہے :

"(وأقسامه ثلاثة: حسن، وأحسن، وبدعي يأثم به) وألفاظه: صريح، وملحق به وكناية(ومحله المنكوحة)    وأهله زوج عاقل بالغ مستيقظ وركنه لفظ مخصوصخال عن الاستثناء (طلقة) رجعية (فقط في طهر لا وطء فيه) وتركها حتى تمضي عدتها (أحسن)."

(كتاب الطلاق،231/230،3،سعید)

تنویر الابصار میں ہے :

"العدۃ ھی۔۔تربص یلزم المرأۃ ۔۔عند زوال النکاح۔۔أو شبھتہ۔۔ وھی فی ۔۔ حرۃ ۔۔تحیض لطلاق ۔۔ثلا ث حیض کوامل."

                                                                                  (باب العدۃ   ،502/3،سعید              )

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"ذهب الحنفية إلى أن العدة تبدأ في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، لأن سبب وجوب العدة الطلاق أو الوفاة، فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت مدته."

(29/ 326،وزارۃ الاوقاف والشئون الاسلامیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101474

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں