بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کو کسی عورت سے بات کرنے پر معلق کرنا


سوال

اگرشوہر نے بیوی سے کہا اگر میں نے کسی عورت سے بات کی تو آپ مجھ پر تین بار" طلاق طلاق طلاق" تو کیا اب شوہر کسی بھی عورت سے چاہے رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار بات کرنے سے بیوی پر طلاق ہوگی ؟اور کتنی طلاقیں ہوں گی ؟ نیز اگر فون پر بات کی یا مسج پر یا وائس پر تواسکا کیا حکم  ہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہر نے اگر کسی بھی عورت سے بات کی ،چاہے رشتہ دار ہو یاغیر رشتہ دار ہو  یا وائس میسج پر بات کرےتو اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی،البتہ  اگر شوہر  نے کسی بھی عورت سے میسج پر لکھ کر کوئی پیغام یا جواب دیا  تو اس سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،اس لئے کہ میسیج کرنے پر شرعاً بات کرنے کااطلاق نہیں ہوتا۔

نيز یہ  جملہ کہتے وقت  شوہر نے اگر  اپنی بیوی کی بھی نیت کرلی تھی تو  بیو ی سے بات کرنے پر بھی طلاق ہوجائے گی ،اور اگر بیوی سے بات کرنے کی نیت نہیں کی تھی تو محض بیوی سے بات کرنے پر مشروط طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"واذا أضافه إلی الشرط، وقع عقیبَ الشرط اتفاقاً، مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار، فأنت طالق."

(کتاب الطلاق، باب الأیمان في الطلاق،الفصل الثالث في تعلیق الطلاق بکلمة إن و إذا و غیرها،ج:1،ص:488،ط: رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"ولو قال نساء أهل الدنيا أو الري طوالق وهو من أهل الري لا تطلق امرأته إلا إن نواها."

(کتاب الطلاق،الباب الثانی فی ایقاع الطلاق،الفصل الاوّل في الطلاق الصريح،ج:1،ص:357،ط:رشيديه)

الدرالمختار مع الردالمحتارمیں ہے:

"الأصل أن الأيمان مبنية عند الشافعي على الحقيقة اللغوية، و عند مالك على الاستعمال القرآني، و عند أحمد على النية، و عندنا على العرف ما لم ينو ما يحتمله اللفظ فلا حنث في لايهدم إلا بالنية، فتح."

(كتاب الايمان،ج:3،ص:743،ط:سعيد)

فتح القدير ميں هے:

"مبنى الأيمان على العرف. واعلم أن الكلام لا يكون إلا باللسان فلا يكون بالإشارة ولا الكتابة، والإخبار والإقرار والبشارة تكون بالكتابة لا بالإشارة، والإيماء والإظهار والإفشاء والإعلام يكون بالإشارة أيضا.

فإن نوى في ذلك كله: أي في الإظهار والإفشاء والإعلام والإخبار كونه بالكلام والكتابة دون الإشارة دين فيما بينه وبين الله تعالى."

(كتاب الايمان،باب اليمين في الكلام،ج:5،ص:144،ط:دارالفكر لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(الأيمان مبنية على الألفاظ لا على الأغراض) ...وقوله: لا على الأغراض أي المقاصد والنيات، احترز به عن القول ببنائها على النية. فصار الحاصل أن المعتبر إنما هو اللفظ العرفي المسمى، وأما غرض الحالف فإن كان مدلول اللفظ المسمى اعتبر وإن كان زائدا على اللفظ فلا يعتبر."

(كتاب الايمان،باب اليمين في الدخول والركوب والسكني،ج:3،ص:743،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں