بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاق کے بعد مزید طلاق دے دی کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 میں نے اپنی بیوی کو دو مختلف مواقع پر دو صریحاً طلاق دی ، دوسری طلاق کی وجہ زید تھا (زید رشتہ دار کا فرضی نام ہے)، جب کہ ابھی کچھ ماہ قبل دسمبر 2022 میں دوبارہ زید کی وجہ سے جھگڑا ہوا ، تیسری طلاق دینے کی نہ نیت تھی، نہ  ارادہ تھا، پھر بھی بیوی کو غصہ یا طیش میں آکریہ الفاظ ادا کیے کہ میں نے زید کی وجہ سے طلاق دےدی (نہ کہ یہ کہا کے طلاق دیتا ہوں یا دے رہا ہوں)،  اس وقت غالب گمان یہی رہا کہ میں پچھلی طلاق جو کہ زید کی وجہ سے دے چکا ہوں، اس کا ریفرینس دے کر بیوی کو دھمکا سکوں،  اس عمل کے فورا بعد ہی میں نے اپنے بچوں اور سالی کو بتادیا تھا کہ میں نے تیسری طلاق نہیں دی، بلکہ بیوی کا دماغ صحیح کرنے کے لیے کیا ہے،  کیا ان الفاظ کی وجہ سے جب کہ میرا ارادہ پچھلی طلاق کو صرف بیوی کو تنبیہ کرانا مقصود تھا،  نہ کہ تیسری طلاق دینا مقصود تھا، کوئی گنجائش باقی ہے یا حقیقتا تیسری طلاق واقع ہوگئی ہے؟ جب کہ ہم دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں، راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ طلاق جس طرح "طلاق دیتا ہوں" اور "طلاق دے رہا ہوں" کے الفاظ سے واقع ہوتی ہے، اسی طرح طلاق دے دی کے الفاظ سے بھی طلاق واقع ہوتی ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں  جب سائل زید کی وجہ سے اپنی بیوی کو دو صریحی طلاق دے چکا تھا ، اور پھر دوبارہ زید کی وجہ سے جھگڑا ہوا اور سائل نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ " میں نے زید کی وجہ سے طلاق دے دی" تو اس سے سائل کی بیوی پر تیسری طلاق بھی واقع ہوچکی ہے، لہذا نکاح ختم ہوچکا ہے، اب سائل  کا رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے ۔

الهداية في شرح بداية المبتدي میں ہے:

"الطلاق على ضربين صريح وكناية فالصريح قوله أنت طالق ومطلقة وطلقتك فهذا يقع به الطلاق الرجعي " لأن هذه الألفاظ تستعمل في الطلاق ولا تستعمل في غيره فكان صريحا وأنه يعقب الرجعة بالنص " ولا يفتقر إلى النية " لأنه صريح فيه لغلبة الاستعمال " وكذا إذا نوى الإبانة " لأنه قصد تنجيز ما علقه الشرع بانقضاء العدة فيرد عليه".

(کتاب الطلاق، باب ایقاع الطلاق، ج:1، ص:225، ط:داراحیاء التراث العربی)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع  میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر."

(کتاب الطلاق، ج:3، ص: 187، ط: ایچ ایم سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں