بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی عدت عورت کہاں گزارے گی؟


سوال

سسرال میں طلاق ہو ئی ہو تو عورت عدت کہا ں گزارے گی ، اور عدت کا دورانیہ کتنا ہے ؟


جواب

صورتِ  مسئولہ میں عورت کو سسرال میں یعنی شوہر کے گھر میں  طلا ق ہوئی ہے توشوہر کے گھر  میں ہی  عدت گزارے گی ،عدت کانان ونفقہ اور باپردہ رہائش شوہر کے  ذمے شرعًا لازم ہے ،بلاضرورتِ  شدیدہ  عدت گزارنے کے لیے کسی اور جگہ  جانا شرعًا ناجائز ہے، ہاں اگر اشد ضرورت ہو، مثلًا :گھر منہدم ہوجائے، یاعورت کو گھر سے نکال دیا جائے، یا اس کی جان، مال ، عزت خطرہ میں ہوں تو ایسی صورت میں وہ قریب ترین دوسری جگہ منتقل ہوسکتی ہے،اسی طرح مطلقہ  کی عدت مکمل تین حیض ہیں  جبکہ حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پید ائش تک عدت گزارے گی ،اس کے بعد  عور ت دوسری جگہ نکاح کر نے میں آزاد ہو گی ۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"(‌وتعتدان في بيت وجبت فيه إلا أن تخرج أو ينهدم) أي تعتد المتوفى عنها زوجها إن أمكنها أن تعتد في البيت الذي وجبت فيه العدة بأن كان نصيبها من دار الميت يكفيها أو أذنوا لها في السكنى فيه، وهم كبار... وقوله إلا أن تخرج أو ينهدم أي إلا أن يخرجها الورثة يعني فيما إذا كان نصيبها من دار الميت لا يكفيها أو ينهدم البيت الذي كانت تسكنه فحينئذ يجوز لها أن تنتقل إلى غيره للضرورة، وكذا إذا خافت على نفسها أو مالها أو كانت فيه بأجر، ولم تجد ما تؤديه جاز لها الانتقال."

(كتاب الطلاق، باب العدة، 37/3،المطبعة الكبرى الأميرية ، القاهرة)

حاشيه ابن عابدين ميں هے:

"(و تعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(باب العدة، فصل في الحداد،536/3،سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة، وإن كانت من جهة المرأة إن كانت بحق لها النفقة۔۔اخ."

( كتاب الطلاق،  الفصل الثالث في نفقة المعتدة،557/1،دار الفكر )

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"إذا ‌طلق ‌الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء سواء كانت الحرة مسلمة أو كتابية كذا في السراج الوهاج".

(کتاب الطلاق،526/1،دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101820

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں