بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کا وقوع کسی جگہ کے ساتھ خاص نہیں


سوال

میرے والد شیعہ ہیں اور والدہ سنی ہیں ،میرے والد نے میری والدہ کو اپنی  بیٹی کے گھر بلا کر تین مرتبہ کہا ؛میں تجھے طلاق دیتا ہوں؛اس کے بعد سے والدین علیحدہ رہ رہے ہیں ،اب سوال یہ ہے کہ مجھے کسی نے کہا کہ طلاق اپنے گھر میں دی جائے تو ہوتی ہے ،دوسرے کے گھر میں نہیں ہوتی ،کیا یہ بات درست ہے ؟کیا یہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے جب سائل کی والدہ کو تین مرتبہ کہا کہ؛میں تجھے طلاق دیتا ہوں؛اس سے سائل کی والدہ پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،کسی کا یہ کہناکہ طلاق اپنے گھر میں دینے سے  ہوتی ہے دوسرے کے گھر میں دینے سے نہیں ہوتی؛ یہ بات درست نہیں ہے ،طلاق کا وقوع کسی جگہ کے ساتھ خاص نہیں ہے ،طلاق جہاں بھی دی جائے خواہ اپنے گھر میں ہو یا کسی دوسری جگہ پر طلاق واقع ہوجائے گی۔

باقی جہاں تک سائل کے والد کا شیعہ ہونے اور والدہ کے سنی ہونے کے تعلق ہے ،تو اگر سائل کے والد کے عقائد کفر کی حد تک پہنچے ہوئے ہیں مثلاً قرآن مجید میں تحریف کا عقیدہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیل امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ ہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار ہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاناہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانناہو یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں '' بدا'' کا عقیدہ رکھناہو (یعنی -نعوذباللہ- کبھی اللہ تعالیٰ سے بھی فیصلے میں خطا ہوجاتی ہے) تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا، اور ایسے شیعہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح جائز نہیں ،تو اس سے سائل کے والد اور والدہ کا نکاح ہی درست نہیں تھا،اور اگر سائل کے والد کے عقائد کفریہ نہیں تو نکاح درست تھا،اور اب طلاق دینے سے طلاق واقع ہوچکی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية."

ـ(کتاب الطلاق،رکن الطلاق،230/3،ط:ایچ ایم سعید)

 ارشادِ ربانی ہے:

"{فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ}." (البقرة: 230)

ترجمہ:"اگر بیوی کو تیسری طلاق دے دی  تو جب وہ عورت دوسرے سے  نکاح  نہ کرلے اس وقت تک وہ پہلے خاوند کے لیے حلال نہ ہوگی۔ "(بیان القرآن)

فتاوی شامی  میں ہے:

"ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته."

(کتاب الطلاق ،باب صریح الطلاق،248/3،ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير."

(کتاب الطلاق،الباب السادس فی الرجعۃ و فیما تحل بہ المطلقۃ وما یتصل بہ، فصل فیما تحل بہ المطلقہ ومایتصل بہ، :1/ 473:ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

''وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر ؛ لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة ؛ فإنه مبتدع لا كافر، كما أوضحته في كتابي '' تنبيه الولاة والحكام علی أحكام شاتم خير الأنام أو أحد الصحابة الكرام عليه وعليهم الصلاة والسلام."

(کتاب النکاح،فصل فی المحرمات،46/3،ط:ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

''ومنها أن لا تكون المرأة مشركةً إذا كان الرجل مسلماً، فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة ؛ لقوله تعالى: ﴿ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتىّٰ يُؤْمِنَّ ﴾ [البقرة: 221] ، ويجوز أن ينكح الكتابية ؛ لقوله عز وجل: ﴿ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ ﴾ [المائدة: 5].

والفرق أن الأصل: أن لا يجوز للمسلم أن ينكح الكافرة؛ لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لا يحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح، إلا أنه جوز نكاح الكتابية ؛ لرجاء إسلامها ؛ لأنها آمنت بكتب الأنبياء والرسل في الجملة ، وإنما نقضت الجملة بالتفصيل بناء على أنها أخبرت عن الأمر على خلاف حقيقته، فالظاهر أنها متى نبهت على حقيقة الأمر تنبهت، وتأتي بالإيمان على التفصيل على حسب ما كانت أتت به على الجملة، هذا هو الظاهر من حال التي بني أمرها على الدليل دون الهوى والطبع ، والزوج يدعوها إلى الإسلام وينبّهها على حقيقة الأمر، فكان في نكاح المسلم إياها رجاء إسلامها، فجوز نكاحها لهذه العاقبة الحميدة، بخلاف المشركة، فإنها في اختيارها الشرك ما ثبت أمرها على الحجة بل على التقليد بوجود الإباء عن ذلك من غير أن ينتهي ذلك الخبر ممن يجب قبول قوله واتباعه - وهو الرسول -، فالظاهر أنها لا تنظر في الحجة ولا تلتفت إليها عند الدعوة فيبقى ازدواج الكافر مع قيام العداوة الدينية المانعة عن السكن والازدواج والمودة خالياً عن العاقبة الحميدة، فلم يجز إنكاحها."

(کتاب النکاح،فصل ان لا تکون المراۃ مشرکۃالخ،270/2،ط:دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں